اِک شہر ِانتخاب

ایبٹ آباد کی شہرت چارسو ہے۔ ہزارہ ڈویژن کے سیاحتی مقامات کی سیر کے لئے آنے والوں کی اکثریت پہلا قیام یہیں کرتی ہے اور اگرچہ اِس سے استفادہ کرنے والے کی بڑی تعداد مختلف مقامات سے واقف ہے لیکن بہت ہی کم ملکی و غیرملکی سیاح تو کیا مقامی افراد کی اکثریت بھی یہاں کے ”ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر ہسپتال (ڈی ایچ کیو)“ کی تعمیراتی خوبصورتی اور اہمیت سے کماحقہ آگاہی نہیں ہوگی‘ جو قدیمی شہر سے متصل (یونین کونسل کیہال) میں واقع ہے۔ برطانوی راج کے دوران جب ایبٹ آباد کو منصوبہ بندی کے تحت ترقی دیکر شہر اور چھاو¿نی کی شکل دی گئی اور یہاں شہری سہولیات کی فراہمی و بندوبست کیا گیا تو فیصلہ سازوں نے چند سو آبادی والے ایک دیہی علاقے کو نہیں بلکہ مستقبل کی ضروریات اور تقاضوں کو پیش نظر رکھا۔

 

منصوبہ بندی کی یہی خصوصیت اگر آج بھی اختیار کر لی جائے تو بہت کچھ سنور سکتا ہے اور بہت سارے وسائل کی بچت ممکن ہو سکتی ہے۔ ہمارے سیاسی و غیرسیاسی‘ منتخب اور غیرمنتخب فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ کس طرح ایک غیرملکی شخص کا نام ’ایبٹ آباد‘ کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے گا کیونکہ اُس نے اپنے منصب اور ذمہ داریوں سے جڑے تقاضوں کو سمجھا۔برطانوی راج کے دوران ’جنوری 1853ئ‘ میں ’میجر جیمز ایبٹ‘ نے جس نئے شہر کی بنیاد رکھی تھی اُسے اُنہی کے نام پر ’ایبٹ آباد‘ کہا جانے لگا۔ دوسری وجہ¿ تسمیہ ’میجر ایبٹ‘ کی ’اَیبٹ آباد‘ کے عنوان سے لکھا ہوا ایک منظوم کلام بھی ہے‘ جو اُنہوں نے یہاں سے رخت سفر باندھتے وقت اِس شہر سے اپنے دلی تعلق‘ محبت اور اِس سے جدائی کے لمحات میں وارد ہونے والے جذبات کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے تحریر کی تھی۔

 

آج بھی ایبٹ آباد سے اِسی قسم کے دلی تعلق اور محبت کے عملی اظہار کی ضرورت ہے‘ تاکہ اِس کے شدید ترین اور دیرینہ مسائل جو بحران کی صورت اختیار کر چکے ہیں اُن کی اصلاح ممکن ہو سکے۔سال 1901ءمیں ایبٹ آباد شہر اور چھاو¿نی کی کل آبادی 7 ہزار 764 نفوس پر مشتمل تھی جبکہ موجودہ مقامی آبادی 10لاکھ سے زیادہ ہے اور اگر اِس میں غیرمقامی افراد کو بھی شامل کر لیا جائے تو اَیبٹ آباد شہر کی 14 یونین کونسلوں کی آبادی قریب پندرہ لاکھ ہوگی۔ سطح سمندر سے 4 ہزار 121فٹ کی بلندی پر چناروں کا یہ شہر آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا 40واں جبکہ خیبرپختونخوا کا چھٹا بڑا شہر ہے اور اِس کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونے کے کئی محرکات میں موسمیاتی تبدیلیاں سرفہرست ہیں۔ ملک کے میدانی علاقوں میں ہر سال گرمی کی شدت پہلے سے زیادہ ہو رہی ہے

 

جبکہ آس پاس کے پہاڑی علاقوں پر مٹی و برفانی تودے‘ برفباری کے سلسلے اور موسلادھار بارشوں کے سبب معمولات زندگی متاثر ہونے کا عرصہ ہر سال طویل ہو رہا ہے‘ اِس لئے چاروں اطراف سے نقل مکانی کرنے والوں کا پہلا پڑاو¿ ایبٹ آباد ہی ہوتا ہے جو بالائی علاقوں کے سنگم پر واقع ہے اور اِسے جغرافیائی اور معتدل موسمیاتی حالات کی وجہ سے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ایبٹ آباد کی کشش کا سبب بننے والا دوسرا محرک اِس کی مواصلاتی خوبیاں اور ہزارہ ایکسپریس (موٹر وے) شاہراہ سے رابطہ ہے کہ اب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد (140 کلومیٹر) ہو یا صوبائی دارالحکومت پشاور (170کلومیٹرز) دونوں کا ایبٹ آباد سے فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے سے کم یا زیادہ سے زیادہ 2گھنٹے میں باآسانی طے ہو جاتا ہے۔

 

امید ہے کہ موٹروے سے ایبٹ آباد کے کسی وسطی مقام (پی ایم اے روڈ یا سیٹھی مسجد) کے قریب ’موٹر وے انٹرچینج‘ بنایا جائے گا کیونکہ فی الوقت دونوں انٹرچینج بالترتیب ایبٹ آباد کے انتہائی آغاز اور انتہائی اختتام پر واقع ہیں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے سلسلے میں جاری ترقیاتی حکمت عملی کی تکمیل پر ایبٹ آباد کی مرکزی حیثیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور تعلیمی اداروں کا یہ شہر”تعلیمی سیاح گاہ“ بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے لیکن اگر اِس سلسلے میں منصوبہ بندی کی جائے اور حکومت کی جانب سے ’ایجوکیشن سٹی‘ کے قیام کا اعلان کیا جائے۔ بہرحال ایبٹ آباد سے متعلق اِس سرسری تمہید اور مختصر پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ضرورت اِس بات کی ہے کہ اِس شہر کے ماضی کو دفن نہ کیا جائے اور یہاں کے قدیمی فن تعمیر کی باقیات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اِس کی حفاظت کی جائے جبکہ یہ تعمیرات اپنی ”اصل اور تندرست حالت“ میں موجود ہیں۔

 

صوبائی حکومت کی جانب سے مختص سالانہ ترقیاتی مالی وسائل سے ’ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر ہسپتال (ایبٹ آباد)‘ کے اُن حصوں کو منہدم کرنے اور سیمنٹ و اینٹوں سے عمارت کھڑی کرنے کی تیاریاں کر لی گئی ہیں جس پر لاگت کا تخمینہ 6 کروڑ 63لاکھ 80 ہزار (63.38 ملین) روپے لگایا گیا ہے ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر ہسپتال کے کئی حصے قدیمی تعمیرات کا شاندار نمونہ ہیں150سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اِن میں ایک دراڑ تک دکھائی نہیں دیتی یہ بالکل کسی پہاڑ کی طرح زمین میں جمی دکھائی دیتی ہیں اور اِن کی مضبوطی کے علاوہ یہ خوبصورتی ایبٹ آبادکے اُس فن تعمیر کا عکاس ہے‘ جو پتھروں اور لکڑی کی مدد سے بنایا جاتا تھا۔ ایبٹ آباد غیرمحفوظ ہے۔ اِس کا ماضی تحفظ اور اِس کا حال سہولیات چاہتا ہے لیکن بدقسمتی سے ایبٹ آباد کو نظرانداز کرنے کا کوئی ایک باب نہیں‘ فیصلہ سازوں کایہ طرزعمل تبدیل ہونا چاہئے۔