عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا پاکستان سے سیکھے کہ عالمی وباءسے کیسے نمٹنا ہے، پاکستان سمیت ان سات ممالک کی وباءکے خلاف تیاری اور ردعمل میں دنیا کیلئے سبق ہے، ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا وباءکے خاتمے کے لئے پاکستان، تھائی لینڈ، نیوزی لینڈ، اٹلی، منگولیا، ماریشس اور یوراگوئے کی تقلیدکی جا سکتی ہے‘ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہا کہ ہمیں آئندہ عالمی وباءپھوٹنے کی صورت میں کورونا وباءسے سبق سیکھنا ہو گا،یہ سبق پاکستان سمیت سات ممالک دنیا کو بہتر طور پرسکھا سکتے ہیں، انہوںنے مستقبل میں کسی ہنگامی وباءسے نمٹنے کے لئے دنیا کو تیار رہنے کا انتباہ بھی جاری کر دیا،ان کا کہنا تھا کہ کورونا آخری وباءنہیں، تاریخ بتاتی ہے وبائیں اور بیماریاں زندگی کی حقیقت ہیں،جس کے لئے عالمی برادری کو ہمیشہ چوکس رہنا ہوگا۔ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہا کہ آج شعبہ صحت میں سرمایہ کاری اور اسے سماجی، اقتصادی‘ سیاسی استحکام کی بنیاد بنانا ناگزیر ہے،جن ممالک نے صحت کے شعبے کو نظر انداز کیا انہیں کورونا کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑا۔
پاکستان میں اب تک کورونا کیسز کی مجموعی تعدا3 لاکھ 371 اور اموات کی تعداد 6 ہزار 370 ہے جبکہ پڑوسی ملک بھارت میں روزانہ کی بنیاد پر کورونا کے اسی، نوے ہزار مریض سامنے آتے ہیں اور روزانہ ایک ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔وہاں کورونا سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 76ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ امریکہ، بھارت، برازیل اور روس کے بعد دنیا بھر میںپیرو پانچویں نمبر پر پہنچ چکاہے جہاں کورونا مریضوں کی تعداد سات لاکھ سے زائد ہو گئی ہے ۔سپین میں مزید10ہزار‘ فرانس میں9ہزار اور انگلینڈ میں مزید3ہزار مریض سامنے آ گئے۔دنیا بھر میں 2 کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ لوگ کوروناکے مرض میں مبتلاجبکہ 9 لاکھ 9 ہزار سے زائد افراد عالمی وباءسے جاں بحق ہو چکے ہیںجو جنگ عظیم کے بعد انسانی ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی طرف سے تعریف و توصیف کو ہماری حکومت اپنی پالیسیوں کی کامیابی کا سرٹیفیکیٹ قرار دے سکتی ہے۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے سربراہ نے ہماری حکمت عملی کو اقوام عالم کے لئے قابل تقلید قرار دیا ہے۔اس بات سے انکار نہیں کہ انسداد کورونا مہم میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کوششیں بھی شامل رہی ہیں ، ہمارے ہاں وقت پر اچھی بارشوں کی وجہ سے زرعی پیداوار میں اضافے کو بھی حکومتیں اپنی کامیاب حکمت عملی قرار دیتی رہی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ حکومت اور ڈاکٹروں کی تنبیہ کے باوجود ہمارے عوام نے کورونا وائرس کو مہمان سمجھ کر اس کی جتنی آﺅ بھگت کی۔ اس مہمان نوازی کی مثال بھی دنیا میں نہیں ملتی۔سماجی فاصلے رکھنے کی ہدایات کو ہم نے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا۔
بازار اور ٹرانسپورٹ کھلنے کے بعد لوگ یوں گھروں سے نکل آئے جیسے انہیں عمر قید سے رہائی ملی ہو۔پاکستان میں کورونا وائرس کے وار زیادہ کارگر نہ ہونے کی بہت سی وجوہات بتائی جاتی ہیںکچھ لوگوں کا مﺅقف ہے کہ لوگوں نے مرض سے بچاﺅ کے لئے دعائیں کی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رحم فرمایا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں گرمی زیادہ ہونے کی وجہ سے کورونا وائرس سست پڑگیا۔کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ ہمارے لوگ بڑے سخت جان واقع ہوئے ہیں وہ ملاوٹی خوراک استعمال کرنے کی وجہ سے پہلے ہی کئی اقسام کے وائرس اپنے جسم میں پالتے ہیں ۔گھی کے نام پر ہمیں چربی کھلائی جاتی ہے۔ چائے کی شکل میں جو مائع چیز ہم پی رہے ہیں اس میں لکڑے کے برادے اور کالے چنے کے چھلکے ہوتے ہیں مصالحوں سے ملتی جلتی جو چیز ہم استعمال کرتے ہیں وہ دراصل پسی ہوئی اینٹیں ہوتی ہیں جو سفید مائع دودھ کے نام پر استعمال کرتے ہیں اس میں 98فیصد پانی ، ایک فیصد کیمیکل اور صرف ایک فیصد دودھ ہوتا ہے۔ ہمارے بازاروں میں پانی کا انجکشن لگا گوشت فروخت ہوتا ہے۔
ہماری خوراک کے ہر جزو میں کیمیکل ہوتا ہے۔ اتنا آلودہ خوراک استعمال کرکے ہم خود سراپا وائرس بن چکے ہیں اس وجہ سے کورونا سمیت کوئی دوسرا وائرس ہم پر اثر نہیں کرتا۔اس کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ ہم حفاظتی اقدامات کو پس پشت ڈالنے کا کسی کو مشورہ دے رہے ہیں۔اپنے ملک کی نیک نامی کی خاطر ہمیں کورونا سے بچاﺅ کے حفاظتی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔اور کچھ نہیں تو ہمارے دشمنوں کے دل کو تو ٹھیس پہنچے گی۔