چالیس سالہ افغان جنگ کا تصفیہ اور اِس جنگ سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل چالیس منٹوں میں ممکن نہیں تاہم خوش آئند ہے کہ خاموشی ٹوٹ چکی ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لئے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل دوحا (قطر) میں (بارہ ستمبر سے) جاری ہے‘ جس کا رسمی افتتاحی اجلاس ذرائع ابلاغ کے لئے مختص دکھائی دیا اور اِس بیٹھک میں ہوئی بات چیت سے خبریں تلاش کرنے والے خاصے مایوس دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ ہر چہرے پر مسکراہٹ اور سنجیدگی سے ملے جلے جذبات عیاں رہے جبکہ یہ محل اُس نتیجے تک پہنچنے کا ہے‘ جس کی شرائط و تفصیلات پہلے ہی سامنے آ چکی ہیں اور زیادہ لمبی چوڑی بات کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ افغان حکومتی وفد کی ’پہلی ترجیح‘ مبینہ طور پر جنگ بندی ہے لیکن طالبان کے لئے ”فوری جنگ بندی“ سے زیادہ اہم افغانستان کی آئینی حیثیت کا ازسرنو تعین اور اقتدار میں حصہ داری جیسے اہداف ہیںجنہیں وہ عسکری مزاحمت ختم کرنے سے قبل سے پہلے طے کرنا چاہتے ہیں۔
طالبان کا اصرار ہے کہ جنگ بندی سے پہلے اُن سبھی عوامل کا خاتمہ ہونا چاہئے جن کی وجہ سے افغان سرزمین ”جنگ کا میدان“ بنی ہوئی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ جنگ بندی کون نہیں چاہتا؟ امن کی بحالی اگر مطمع نظر نہ ہوتی تو طالبان مذاکرات پر رضامند نہ ہوتے بلکہ باقی ماندہ (چالیس فیصد) اَفغانستان پر بھی کنٹرول حاصل کرنے کے لئے عسکری جدوجہد جاری رکھتے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ افغان حکومت اور طالبان نے بالآخر سمجھ لیا ہے کہ طاقت کے استعمال سے نہ تو مزید افغانستان کو تسخیر کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی طالبان کے زیرکنٹرول علاقوں کو واگزار کرانا ممکن ہے کیونکہ افغان تنازعے میں نہایت ہی کامیابی سے ”قوم پرستی“ کو شامل کر لیا گیا ہے جس کا ایک فریق اکثریتی افغان پختونوں کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور طالبان افغان پختونوں کی اکثریت کو یہ باور کرانے میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں کہ صرف وہی اِن کے حقوق کے محافظ اور افغانستان کے اسلامی تشخص کو بحال کرنے میں مخلص ہیں۔
دوسرا فریق جنگ کو فساد اور صلح کو اصلاح قرار دیتے ہوئے ریاست کے خلاف جنگ کو بغاوت و غارت گری قرار دیتا ہے لیکن اِس بات پر تائید و یقین کرنے والوں کی تعداد کم ہے ’بین الافغان مذاکرات‘ کے باقی اَدوار ’بند کمرے‘ میں ہوں گے تاہم اِس سے قبل ہی دونوں فریقین نے اپنے اپنے سوشل میڈیا ٹیموں کو فعال کر دیا ہے اور لمحہ بہ لمحہ تفصیلات سامنے آ رہی ہیں۔ افغان ذرائع ابلاغ اِس پوری صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو ایک فطری بات ہے کہ اُن کے ملک کے مستقبل کا تعین ہو رہا ہے تاہم کچھ انہونی باتیں بھی افتتاحی اجلاس کے موقع پر دیکھنے میں آئیں جیسا کہ افغان صحافی خواتین کی طالبان وفد کے اراکین سے بات چیت اور اِس سے قبل و بعد میں انوکھے تاثرات و تبصرے جن پر ’تعجب خیزی‘ کا عنصر غالب رہا۔ طالبان پہلی مرتبہ ذرائع ابلاغ سے نظریں چرا نہیں رہے بلکہ جس تیزی و تندی سے سوال پوچھے جاتے ہیں اُتنی ہی تیزی سے اُن کے جوابات بھی دیئے جا رہے ہیں۔
ایک چھت تلے آمنے سامنے بیٹھنا کافی نہیں لیکن افغانوں کو ایسے مستقبل کے لئے بغل گیر ہونا ہوگا‘ جس میں خارجی طاقتوں سے زیادہ داخلی یعنی افغان عوام کے مفادات کو مدنظر رکھا جائے۔ اعتراضات بہت ہیں جیسا کہ افغان وفد میں پانچ جبکہ طالبان وفد میں ایک خاتون بھی شامل نہیں لیکن طالبان نے رواں برس ماہ فروری سے قبل جب امریکیوں سے معاہدہ ہوا اُس میں بھی کسی خاتون کو شریک نہیں کیا کیونکہ اُن کے نزدیک ضروری نہیں کہ عمومی حالات میں حکومت اور قومی فیصلہ سازی میں خواتین کو شریک کیا جائے تاہم وہ قائل ہیں کہ قومی فیصلوں سے متعلق اُن کی رائے اور مو¿قف جاننے کے لئے الگ سے ’باپردہ انتظام‘ ہونا چاہئے یقینا کسی وفد میں خواتین کی موجودگی سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ افغان خواتین کے حقوق یعنی اُن کے گھروں سے باہر کاروبار‘ تعلیم و تربیت اور ملازمت وغیرہ جیسے امور کے حوالے سے بات چیت کی جائے جو فی الوقت بین الافغان مذاکرات کا حصہ نہیں اور اِن کا احاطہ شاید ضمنی موضوع کے طور پر بعد میں کیا جائے گا۔
طالبان جس افغانستان میں عین اسلامی اصولوں کے مطابق خواتین کو آزادی دینے کی بات کرتے ہیں‘ اُس سے متعلق افغان حکومت اور دیگر مسالک کا مو¿قف مختلف ہے اور یہی وہ رکاوٹ ہے جسے دور کرنے کے لئے اگر افغان آئین میں ترامیم کر کے اِسے بالادست سمجھ لیا جائے اور اِس بات پر اتفاق ہو جائے کہ تمام فریقین کے لئے افغان آئین پر عمل درآمد لازم ہوگا اور آئین کی تشریح یا تشریحات کسی مسلک و فرقے کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق حتمی تصور نہیں کی جائے گی تو یہ بات سبھی فریقین کے لئے قابل قبول ہے اور اِس سے ہی قیام امن کا ہدف عملاً باآسانی‘ پائیدار اور فوری طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔