خواتین پرتشدد

موٹر وے پر فرانس سے آنے والی خاتون پرتشددکے واقعہ پر پورا ملک غضب ناک ہے ‘لوگ پولیس کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جنکی غفلت اورغیر ذمہ داری سے اتنابڑا سانحہ رونما ہوا خاتون ڈیفنس لاہور سے بچوں کے ساتھ خود ڈرائیو کرتی ہوئی بذریعہ موٹر وے گجرانوالہ روانہ ہوئیں تو تھوڑی دیر بعد ہی انکی گاڑی کا پٹرول ختم ہوگیا انہوں نے مدد کیلئے رشتہ داروں کو فون کیا جنہوں نے موٹر وے کی ہیلپ لائن ملائی جہاں سے جواب ملا کہ یہ علاقہ ابھی انکے دائرہ کارمیں شامل نہیں بیچاری اکیلی خاتون سنسان سڑک پر بچوں کے ساتھ مدد کا انتظار کر رہی تھیں گاڑی کے دروازے انہوں نے اندر سے لاک کردیئے تھے اتنے میں دو رہزن مقامی کھیتوں سے نمودار ہوئے انہوں نے خاتون کو دروازہ کھولنے کیلئے کہا اور نہ کھلنے پر انہوں نے گاڑی کے شیشے زبردستی توڑ کر دروازہ کھولا خاتون اور بچوں کو زبردستی گاڑی سے نکالا اور ویرانے میں دھکیلنے لگے بچے اور خاتون مدد کیلئے چلاتے رہے ایک گاڑی ادھر سے گزری اس کے ڈرائیور نے دیکھا کہ دو افراد ایک خاتون اور بچوں کو زبردستی گاڑی سے نکال کر لے جارہے ہیں تو انہوں نے پولیس ایمرجنسی نمبرپر اطلاع دی ان کو خود رک کر مدد کرنی چاہئے تھی مگر شاید وہ اس پوزیشن میں نہیں تھے

اس اور ان دونوں درندوں نے خاتون اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنائے رکھا ویرانے میں خاتون سے نقدی اور زیورات چھیننے کے بعد انہیں تشدد کا نشانہ بنایا بچوں اور خاتون کی منتیں اور فریاد ان کو نہ روک سکی پولیس جب تک اس جگہ پہنچتی دونوں درندے وہاں سے لوٹ مار اور تشدد کرنے کے بعد فرار ہوچکے تھے ڈولفن فورس کے اہلکار جب گاڑی کے قریب پہنچے اور انہیں کوئی نظر نہ آیا تو انہوں نے ٹارچ کی روشنی میں آس پاس دیکھنا شروع کیا بچوں کے جوتوں سے انہوں نے راستہ کا تعین کیا تو دیکھا کہ ایک خاتون اپنے بچوں کو ساتھ لپیٹ کر مدد کا انتظار کر رہی تھیں خوف اور دہشت ان سب کے چہروں پر عیاں تھی خاتون اتنی دہشت زدہ تھی کہ پولیس اہلکاروں کو بھی قریب نہیں آنے دے رہی تھیں جب پولیس اہلکاروں نے انہیں تسلی دی کہ وہ انکی مدد کو آئے ہیں تو خاتون نے باربار درخواست کی کہ اس واقعے کا ذکر کسی سے نہ کیا جائے کیونکہ نہ صرف انکی اور انکے بچوں کی بلکہ انکے پورے خاندان کی زندگی جہنم بن جائے گی

 مگر پولیس نے اپنے معمول کی کاروائی شروع کی خاتون کو انکے رشتہ داروں کے ہاں پہنچایا گیا نہ جانے کس طرح واقعہ سوشل میڈیا تک پہنچا اور پھیلتا گیا پورے ملک میں غیض و غضب کی ایک لہر دوڑ گئی پولیس والوں کی دوڑیں لگ گئیں پنجاب میں آئی جی اور لاہور پولیس کے سی سی پی او کی تعیناتی کا تنازعہ پہلے سے چل رہا تھا اس واقعے کے حوالے سے سی سی پی او ے کے بیان پر لوگ مزید مشتعل ہوئے لوگوں نے کہا کہ پولیس عوام کی حفاظت کے ذمہ دار ہے حکومت کو ووٹ بھی اسلئے ملتے ہیں کہ حکومت اور ریاست کے ادارے ہرشہری کی جان ومال عزت و آبرو کے محافظ ہوتے ہیں ایسے میں یہ دلیل کہ خاتون کو اکیلے اتنی رات کو نہیں جانا چاہئے تھا یا موٹر وے کی بجائے جی ٹی روڈ کا راستہ اختیار کرنا چاہئے تھا ناقص اور غیر ذمہ دارانہ ہے پولیس کا فرض ہے

کہ وہ عوام کی غیر ذمہ داری کی نشاندہی کی بجائے عام آدمی کی حفاظت کا فرض نبھائے ورنہ تو روزانہ ہزاروں لاکھوں خواتین رات گئے ‘ شام کو یا صبح سویرے اکیلی جاتی ہیں ایک مجبوری ہوتی ہے کئی دفتر سے دیر سے فارغ ہوتی ہیں کسی کو گھروں میں کام کاج کے بعد رات دیر سے چھٹی ملتی ہے کوئی با امر مجبوری اکیلی یا بچوں کے ساتھ ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس جاتی ہیں بے شمارگداگر خواتین رات تک سڑکوں پر بھیک مانگتی ہیں اب ایسے میں ان کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت ‘پولیس اور دیگر اداروں پر نہیں تو کس پر ہے؟ چاہے جو بھی حالات ہوں خواہ کسی کی کتنی بھی بڑی غلطی ہو حکومت اور پولیس کا فرض ہے کہ ہر مرد خاتون شہری کی جان حال عزت اور آبرو کی حفاظت کرے لاہور واقعے میں کافی پیش رفت کے دعوے کئے جارہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ کیس منطقی انجام تک پہنچ جائے گا

 مگر کیا مزید خواتین کی بے عزتی نہیں ہوگی؟ کیا درندے اس طرح کی درندگی سے باز آجائینگے؟ کیا خواتین کام کاج اور دیگر ضروریات کیلئے بغیر کسی خوف کے نکل سکیں گی؟ ہماری حکومت اداروں اور معاشرے کو اس بات پر سوچنا چاہئے کہ آخر ہم بے بس اور کمزور کو کب تک زیادتی کا نشانہ بنائینگے ظالم اور مجرم کو کب تک زبردستی جرم سے نہیں روکیں گے ہم سب کا فرض ہے کہ ایسی قانون سازی کیلئے آواز اٹھائیں کہ مجرموں خصوصاً ایسے جرائم میں ملوث افراد کو ایسی سزا ملے جو باقی سب کیلئے مثال ہو ساتھ ہی اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ دوسروں کی بیٹیوں پر غلط نظر رکھنے کی بجائے انہیں عزت اور سکون سے زندگی گزارنے دیں انکی عزت کریں اور انکی حفاظت کریں۔