افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات خلیجی ریاست قطر میں شروع ہو گئے ہیں۔مذاکرات میں شریک افغان حکومتی ٹیم کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ کا کہنا ہے کہ وہ منصفانہ اور باوقار امن کے خواہاں ہیں۔ افغان طالبان کی طرف سے اکیس رکنی مذاکراتی ٹیم کی قیادت طالبان حکومت کے چیف جسٹس مولوی عبدالحکیم کررہے ہیں ان مذاکرات میں طالبان کی طرف سے فیصلے کا مکمل اختیارمولوی عبدالحکیم کو دیا گیا ہے عام تاثر یہ ہے کہ مولوی عبدالحکیم افغان طالبان میں سخت گیر موقف رکھنے والے رہنما ہیں تاہم وہ اصولی موقف پر قائم رہنے والے اور اکثر مشکل مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں ۔بین الافغان مذاکرات کی افتتاحی تقریب کے موقع پر امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ افغانستان میں پائیدارامن کا قیام ممکن ہے انہوں نے دوحہ مذاکرات کو امن کے لئے تاریخی موقع قرار دیا اور کہا کہ طالبان دہشتگرد عناصر کی سرپرستی نہ کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔انہوں نے مشورہ دیا کہ افغان حکومت اور طالبان تشدد اور کرپشن سے بچیں اور امن وخوشحالی کی جانب بڑھیں۔
دوسری جانب طالبان کا کہنا تھا کہ وہ پرامن، مستحکم اور آزاد افغانستان کیلئے پرعزم ہیں مستقبل کے افغانستان میں اسلامی نظام ہونا چاہئے۔افغان امن کمیٹی کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے ملک بھر میں انسانی بنیادوں پر سیز فائر کامطالبہ کیا انہوں نے کہا کہ امن معاہدے کے بعد بھی بین الاقوامی معاونت کی ضرورت ہوگی۔دوحہ امن مذاکرات کے دوران ہی افغان صوبہ تخار کے شہر تالیوکان میں طالبان کے ٹھکانے کو فضائی حملے کا نشانہ بنایاگیا جس کے نتیجے میں بارہ افرادجاں بحق اور درجنوںزخمی ہو گئے ۔امریکہ کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات اور پھر انٹرا افغان مذاکرات کی میزبانی کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جنگ و جدل اور خون خرابہ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ ہر مشکل تنازعے کا حل صرف اور صرف مذاکرات کی میز پرنکل سکتا ہے۔
امریکہ نے طاقت کے بل بوتے پر افغان خانہ جنگی کو ختم کرنے کی کوشش کی مگر اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانے کے بعد انہوں نے بندوق کے بجائے بات چیت کا راستہ اختیار کیا۔ امریکہ کے بل بوتے پر قائم افغان حکومت حامد کرزئی کے دور میں مستحکم تھی نہ ہی اشرف غنی کے دور میں افغانستان پر حکومت کی رٹ قائم ہے۔ طویل خانہ جنگی کا شکار اس ملک کے کچھ حصے پر کابل حکومت، کچھ حصے پر طالبان، ایک بڑے حصے پر شمالی اتحاد اور کچھ علاقوں پر مقامی وار لارڈز کی حکمرانی ہے۔ دوحہ مذاکرات میں افغانستان میں وسیع البنیاد قومی حکومت کے قیام پر اتفاق رائے اور اس پر عملدرآمد کے بغیر دیرپا امن کا قیام ممکن نظر نہیں آتا۔ افغانستان سے سوویت افواج کی واپسی کے بعد امریکہ نے افغان عوام کو ان کے حال پر بے یارومدد گار چھوڑ کر جو غلطی کی تھی اب اس غلطی کا ازالہ کرنے کا موقع آگیا ہے۔ اس بار مزید غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔اگر افغانستان میں پھر سے خانہ جنگی شروع ہوگئی تو نہ صرف یہ ملک تباہ و برباد ہوجائے گا بلکہ خطے پر بھی اس کے سنگین منفی اثرات مرتب ہوں گے۔امریکہ سمیت عالمی برادری کو افغانستان کو مالی امداد کے ساتھ وہاں اداروں کے قیام اور تعلیم کے فروغ پر توجہ دینی چاہئے۔ یہ بات طے ہے کہ جب تک افغانستان میں تعلیم کا معیار اورخواندگی کی شرح بڑھانے پر توجہ نہیں دی جاتی،وہاں خانہ جنگی کی صورتحال برقرار رہے گی۔افغان کرنسی کوڈالر کا سہارا دے کر امریکہ نے وہاں معیشت کا جو ڈھانچہ کھڑا کیا ہے۔ امریکی فوجی انخلاءکے بعد وہ دیمک زدہ ڈھانچہ دھڑام سے گر جائے گا۔ اس لئے افغان معیشت کو کم از کم دس سال تک مضبوط سہارے کی ضرورت ہے۔ دوحہ امن مذاکرات کے فریقین کو باہمی چپقلش کو نمٹانے کے ساتھ افغانستان کے معاشی استحکام پر بھی غور کرنا چاہئے اور مذاکرات کی میزبانی کرنے والے امریکہ سے اس بات کی ضمانت لینی چاہئے کہ جب تک افغانستان معاشی اور سیاسی طور پر اپنے پاﺅں پر کھڑا نہیں ہوتا۔ امریکہ اور عالمی برادری اس کی مدد جاری رکھے گی۔ کیونکہ موجودہ حالات میں امن کے قیام کے باوجود کوئی بھی حکومت تنہا ملک کو درپیش گھمبیر مسائل حل نہیں کرسکتی۔