مفادات کی عینک

 افغانستان میں بھارت کی موجودگی اور بین الافغان امن مذاکرات میں بھارت کی دلچسپی دونوں ہی پاکستان کے نکتہ¿ نظر سے تشویشناک اور غیرضروری ہیں جبکہ یہی وہ نکتہ ہے کہ جو افغانستان قیام امن کی اب تک ہوئی جملہ کوششوں کو ناکام بنانے کا باعث ثابت ہوا ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں بھی افغان فریق آپس میں قیام امن کے لئے مل بیٹھے تو کوئی نہ کوئی بیرونی طاقت اُنہیں استعمال کر لیتی ہے جس سے خانہ جنگی کا نیا دور شروع ہو جاتا ہے ‘ موجودہ بین الافغان مذاکرات کے ساتھ افغانستان میں حکومت اور مخالف عسکری دھڑے کے درمیان ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے بلکہ تشدد کی لہر میں شدت محسوس ہو رہی ہے تو اِس پر تعجب کا اظہار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ پیغام نہایت ہی واضح ہے کہ اگر بین الافغان امن مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو اِس کے بعد افغانستان کے مستقبل کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔

 دوحا (قطر) میں جاری بین الافغان مذاکرات سے اِس قسم کا تاثر مل رہا ہے کہ جیسے یہ افغان فریقین کے مابین نہیں بلکہ خطے ‘ہمسایہ ممالک اور عالمی طاقتوں پر مبنی گروہوں کے درمیان بات چیت ہے۔ درحقیقت بھارت کی افغانستان میں موجودگی اور خطے میں تھانیداری والا کردار ادا کرنے کی خواہش کا درپردہ محرک امریکہ اور اسرائیل پشت پناہی ہے‘ جنہوں نے اپنے مفادات کا دفاع کرنے کے لئے نئے اتحادی (بھارت) کا انتخاب کر رکھا ہے ۔افغان سرزمین پر بھارت جس قدر بھی سرمایہ کاری کر لے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود رہے گی کہ افغان طالبان کی پاکستان سے قربت ہے اور یہ قربت رہے گی جسے کمزور کرنے کے لئے بھارت ’فرنٹ لائن‘ پر کھیل رہا ہے اور اگرچہ اُس کی افغانستان میں غیرمعمولی سرمایہ کاری اور بھرپور موجودگی کے دس برس مکمل ہو گئے ہیں اور اِس نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ اپنے سفارتخانے قائم کرکے داخلی طور پر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے لیکن بھارت جانتا ہے

 کہ طالبان کی اقتدار میں واپسی کا مطلب پاکستان کے خلاف افغان سرزمین اور اِس کے وسائل کا استعمال ختم ہو جائے گا اور یہ بات امریکہ نے طالبان سے امن معاہدے (اُنتیس فروری دوہزار بیس) میں بھی بطور خاص ایک شق کے طور پر تحریر کی ہے کہ طالبان اِس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ امریکہ افغان امن کو اپنے ’مفادات کی عینک‘ لگا کر دیکھ رہا ہے بین الافغان مذاکرات میں بھارت کی مداخلت اور دلچسپی کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات اور تشویش سے امریکہ پہلے ہی آگاہ ہے اور یقینا زلمے خلیل زاد کو بھی یاد دہانی کروا دی گئی ہو گی کہ بین الافغان مذاکرات میں پاکستان کا کردار اگر پوشیدہ نہیں اور پاکستان نے امن کے ہر مرحلے پر ’غیرمشروط تعاون‘ کیا ہے

 تو اِسے پاکستان کی کمزوری اور مجبوری یا ضرورت نہیں بلکہ خلوص کی صورت دیکھنا چاہئے۔ چاہے وہ نیٹو اَفواج کے لئے سازوسامان کی نقل و حمل ہو یا باعزت و باحفاظت واپسی یا طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے لئے قائل کرنے جیسی خطرناک کوششیں جو خوش قسمتی سے کامیاب ثابت ہوئیں۔ پاکستان کی جانب سے حال ہی میں بین الافغان مذاکرات کا خیرمقدم کرتے جن کوششوں کا ذکر کیا گیا ہے درحقیقت اُس کی راہ افغان عوام برسوں سے دیکھ رہی تھی اور دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے افغان امن کی سب سے زیادہ ضرورت افغان عوام کو ہے‘ جن کے وجود اور جن کو درپیش مشکلات و مصائب کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جا رہی بلکہ ہر فریق افغان امن میں اپنا اپنا سیاسی مستقبل و مفاد محفوظ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔بھارت برسوں سے افغانستان میں تعلیم‘ صحت اور بنیادی سہولیات کو بہتر بنانے جیسے ظاہری منصوبوں کی آڑ میں اپنا اثرورسوخ قائم کئے ہوئے ہے ‘ افغان پارلیمان کی نئی عمارت بنانے کے علاوہ بھارت آبی ذخائر ‘ پن بجلی کے پیداواری‘ تعلیمی اداروں اور شاہراو¿ں و ہسپتالوں کی تعمیر کے منصوبوں کو بطور خاص توجہ دے رہا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق افغانستان میں قریب سترہ سو بھارتی موجود ہیں جو مختلف افغان اداروں اور بالخصوص انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کام کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں سرمایہ کاری کرنے سے افغانستان کی کلیدی و عمومی فیصلہ سازی کے خدوخال سے آگاہ ہوا جا سکتا ہے جبکہ اِنہی معلومات کی بنا ءپر افغان قومی فیصلہ سازی پر بروقت اور حسب ضرورت اثرانداز ہونا بھی ممکن ہے بظاہر بین الافغان مذاکرات میں جنگ بندی‘ شراکت اقتدار اور قیام امن کے بعد کے طرزحکمرانی سے متعلق فیصلے ہونے ہیں لیکن درپردہ یہ مذاکرات افغانستان میں بیرونی قوتوں کے کردار کا تعین کریں گے اور اِن مذاکرات کے اختتام پر معلوم ہوجائے گا کہ مستقبل کے افغانستان پر درحقیقت کس کی حکمرانی ہو گی اور وہاں کس ملک کا سکہ چلے گا۔