قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے دو سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑنے پر پابندی کا بل منظور کر لیا ہے ۔خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے متعلق آرٹیکل 51 میں ترمیم کے بل کی پیپلز پارٹی ،ن لیگ اور جے یو آئی نے مخالفت کر دی، مسلم لیگ کا موقف تھا کہ مخصوص نشستوں پر بڑی جماعتوں کی اجارہ داری ہوتی ہے، پنجاب کے نو ڈویژنوں میں کوئی منتخب خاتون رکن اسمبلی نہیں، کمیٹی کے رکن جنید اکبر نے اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر براہ راست انتخابات کا مطالبہ کیا۔ پیپلز پارٹی کے نوید قمر کاموقف تھا کہ وہ پارٹی قیادت سے مشاورت کے بغیر کوئی رائے نہیں دے سکتے، انتخابی اصلاحات کے وقت مخصوص نشستوں پر براہ راست الیکشن کی تجویز مسترد ہوئی تھی،براہ راست الیکشن میں صرف امیر لوگ ہی اقلیتی اور خواتین نشستوں پر آئیں گے۔
سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ مخصوص نشست والی خواتین اراکین پارلیمنٹ کو جنرل نشستوں پر کامیاب ہونے والے مردوں کی نسبت کم تر سمجھا جاتا ہے کئی سینئر اراکین کہتے ہیں کہ خواتین کی نشستیںسیٹیں ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت خواتین کو جنرل نشستوں پر ٹکٹ دینے کے لئے تیار نہیں ۔خواہ وہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف جیسی ترقی پسند کہلانے والی پارٹیاں ہوں، مسلم لیگ جیسی میانہ رو جماعت ہو یا قدامت پسند کہلائی جانے والی دینی سیاسی جماعتیں ہوں۔جس پارٹی کو قومی یا صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں مردوں کی جتنی نشستیں ملتی ہیں اسی تناسب سے انہیں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں مخصوص نشستوں پر جماعت اسلامی اور جے یو آئی کی خواتین بھی اسمبلیوں میں پہنچتی ہیں خود کو ترقی پسند اور حقوق نسواں کی علمبردار ،روشن خیال اور ترقی پسند کہلانے والی پارٹیوں اور قدامت پسندوں میں پھر کیا فرق رہ جاتا ہے۔
خواتین کا ہمیشہ سے یہ شکوہ رہا ہے اورسچ بھی یہی ہے کہ سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہیں خواہ ان کا تعلق رجعت پسند جماعت سے ہو یا ترقی پسند پارٹی سے۔وہ کبھی نہیں چاہتے کہ خواتین اپنی آبادی کے تناسب سے منتخب ہوکر اسمبلیوں میں آئیں۔ پاکستان کی بائیس کروڑ آبادی میں خواتین کی تعداد گیارہ کروڑ بنتی ہے اور قومی ایوانوں میںانہیں صرف مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں۔ جب قانون سازی کے عمل سے انہیں دور رکھا جائے گا تو پھرخواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق قانون سازی کیسے ہوگی کم از کم مردوں سے یہ توقع رکھنا عبث ہے۔ جب قانون سازی ہی نہیں ہوگی تو معاشرے میں خواتین کو ان کے جائز حقوق کیسے ملیں گے۔جہاں تک صلاحیتوں کا تعلق ہے مردوں اور خواتین میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا بلکہ دیکھا گیا ہے کہ بعض شعبوں میں خواتین مردوں کی نسبت زیادہ باصلاحیت ہوتی ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ مرد حضرات ہر جگہ خواتین کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہتے ہیں کہ انہیں اپنا حکم چلانے کا موقع مل جائے تو ملک میں عورت راج قائم نہ کر دیں۔ حقوق نسواں کا حامی ہونے کے ناطے میری تجویز یہ ہے کہ خواتین اپنی الگ پارٹی بنالیں ۔ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں مردوں کی اجارہ داری ہے ۔
ظاہر ہے کہ مردوں کی پارٹیوں میں انہیں صرف مخصوص نشستیں ہی ملیں گی۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر خواتین نے اپنی سیاسی جماعت بنالی تو ان سے کوئی اقتدار نہیں چھین سکتا۔ملک کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے اگر بیس پچیس فیصد مرد گزیدہ خواتین کو نکال بھی دیں تب بھی 75فیصد خواتین کی حمایت انہیں حاصل رہے گی۔ایک طرف مردوں کی 122 پارٹیاں ہوں گی اور دوسری جماعت خواتین کی اکلوتی پارٹی ہوگی۔لیکن اس کےلئے ضروری ہے کہ خواتین اپنی چند عادتیں بدلنے پر توجہ دیں، خاص طور پر انہیں ساس بہو، بھاوج نند، سوتن اور سوتیلی ماں والی عادتیں ترک کرنی ہوں گی۔ اگرچہ یہ کام بہت مشکل ہے لیکن عورت ذات کے سیاسی مستقبل کو بچانے کےلئے انہیں یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی ہوگا۔ بصورت دیگر ان ہی نشستوں پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔