پاکستان کی سیاست اور اِس سیاست کی رگوں میں دوڑنے والی سیاست درحقیقت ’الٹی گنگا‘ ہے کہ یہاں سیاست اختلافات کم کرنے کا نہیں بلکہ اِنہیں بڑھانے بلکہ بڑھکانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ قوم کی نظر میں وہ زیادہ بڑا سیاست دان ہوتا ہے جو اختلافات میں اضافہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کا سچ ہمیشہ ناقابل یقین جبکہ حزب اختلاف کا سچ ہمیشہ ناقابل بھروسہ رہتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اِس خسارے کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے‘ جس نے اُنہیں سنجیدہ طبقات کی نظروں سے گرا دیا ہے۔ قومی اسمبلی ایوان کی براہ راست نشر کی گئی کاروائی (چودہ ستمبر) میں لاہور کے قریب قومی شاہراہ پر خاتون سے ہوئی جنسی زیادتی کے حوالے سے حزب اقتدار و حزب اختلاف کے پالیسی بیانات سامنے آئے۔ اگرچہ اِس سے قبل بھی دونوں فریق اِس بارے میں اظہار خیال کر چکے تھے لیکن پارلیمان کے اندر سانحے کے چوتھے روز یہ پہلا موقع تھا جب بات کی گئی۔
قوم سن رہی تھی جب شہباز شریف نے ایک موقع پر کہا کہ ”(یادش بخیر) مسلم لیگی ادوار میں 95فیصد پولیس بھرتیاں اہلیت کی بنیاد پر ہوا کرتی تھیں۔“ اُن کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ تحریک انصاف پولیس بھرتیوں اور تعیناتیوں میں اہلیت کو مدنظر نہیں رکھ رہی۔ اگر شہباز شریف کی بات کو درست تسلیم کر لیا جائے کہ پنجاب میں نواز لیگ کے تیس سالہ حکمرانی میں اہلیت (میرٹ) کو ملحوظ رکھا گیا تو ایسی صورت میں سانحہ ماڈل ٹاو¿ن پیش نہ آتا۔ کیا ’گلو بٹ‘ کا کردار تحریک انصاف کی تخلیق و عنایت ہے؟ اِسی طرح اگر تحریک انصاف حسب اعلانات اہلیت کو ترجیح دیتی تو لاہور کے پولیس سربراہ (سی سی پی او) خاتون کی عصمت دری جیسے انتہائی حساس معاملے پر غیرحساس بیان نہ دیتے! سبھی یکساں قصوروار ہیں اور ملک کو اِس پرخطر مقام پر لاکھڑا کرنے میں ہر سیاسی جماعت نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے کہ آج عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو سمیت کچھ بھی محفوظ نہیں رہا! سیاسی فیصلہ سازوں کو اپنی کارکردگی کا احتساب کرنا چاہئے کہ اُنہوں نے ملک کو عدم برداشت‘ فرقہ واریت اور لاقانونیت جیسے تحائف دینے کے علاوہ قومی اداروں کو اس حد تک تباہ و برباد کر دیا ہے کہ سرکاری محکموں سے جائز کام کروانے کے لئے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔
لاہور کے قریب جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کے سانحے سے کئی کہانیوں نے جنم لیا ہے اور اِس بارے میں جس کسی نے بھی اب تک اظہار خیال کیا ہے اُس کے بیان کا کوئی نہ کوئی حصہ متنازعہ رہا ہے جیسا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل بھی تنقید کی زد میں ہیں حالانکہ اِس معاملے پر سیاسی رائے کا اظہار کرنے کی بجائے اگر خاموشی اختیار کی جائے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا کام کرنے دیا جائے جیسا کہ پوری دنیا میں ہوتا ہے تو اِس سے مجرموں تک پہنچنے میں آسانی رہے گی ،کیا واقعی یہ وقت جذباتی تقاریر کرنے کا ہے؟ سوشل میڈیا پر مختصر دورانئے کے ”سیاسی ویڈیو کلپس“ زیرگردش رہتے ہیں جن کی تعداد میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے ’سوشل میڈیا سیل‘ قائم کر رکھے ہیں
جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے جس انداز سے عمل اور ردعمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں اِس سے پاکستانی معاشرے کی رہی سہی ساکھ‘ قومی مزاج اور سماجی و سیاسی اقدار کا بھی جنازہ نکل گیا ہے! المیہ ہے کہ حادثہ ہو یا جرم ہو ہر سانحے کے کندھے پر رکھ کر بندوقیں نہیں توپیں چلائی جاتی ہیں! اور اِس سے بھی زیادہ قابل توجہ کردار سوشل میڈیا صارفین کا ہے جو سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا نفسیات کو نہیں سمجھ پاتے اور غلط یا سیاق و سباق کے بغیر جاری ہونے والے پیغامات کی تشہیر (ری ٹویٹ) کرتے ہوئے ’شریک مجرم‘ بن جاتے ہیں۔ روایتی ذرائع ابلاغ کے مقابلے سوشل میڈیا کی تاثیر زیادہ ہے اور اصولاً اِس کے ساتھ جڑی ذمہ داری کا بھی زیادہ گہرائی و سنجیدگی سے احساس و ادراک ہونا چاہئے لیکن تحقیق تو بہت دور کی بات سیاسی جماعتوں کی پیروی کرنے والے کارکنوں کے لئے بس یہی کافی ہوتا ہے کہ پارٹی کی طرف سے جاری ہونے والے بیان پر مزید تحقیق کی ضرورت نہیں ہوتی! سیاست دانوں کو یہ کمال و مہارت حاصل ہے کہ اِن کی ہر بات میں وزن ہو یا نہ ہو لیکن تنقید کا زاویہ ضرور موجود ہوتا ہے ۔