روشن پاکستان

وفاقی حکومت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سیاست سے لیکر قومی ترقی کے مراحل میں شانہ بشانہ شریک دیکھنا چاہتی ہے اور اِس سلسلے میں متعدد اقدامات کئے گئے ہیں جن میں ’روشن پاکستان‘ کے نام سے ایک بہت ہی خاص حکمت عملی بھی شامل ہے اور اِس کے ذریعے بیرون ملک مقیم افراد کمپیوئرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی بنیاد پر پاکستان کے اندر بینک اکاو¿نٹ کھول سکیں گے اور اِن کھاتوں کے ذریعے ’آن لائن‘ پیسوں کی ادائیگی و منتقلی جیسی سہولیات سے بھی استفادہ کر پائیں گے۔ کسی بینک اکاو¿نٹ کھلوانے کے لئے جو پہلی مشکل ذہن میں آتی ہے وہ اُس کے مطلوبہ کاغذات کی صورت اہلیت ہے جس میں کئی کاغذوں پر دستخط کرنا ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں روشن پاکستان کا بینک اکاو¿نٹ کیسے کھلے گا جبکہ بیرون ملک قونصل خانے بند ہیں۔ سہولت زبردست ہے کہ بیرون ملک رہنے والے اپنے بچوں کی سکول فیسیں‘ یوٹیلٹی بلز اور ادائیگیاں آن لائن کر سکیں گے اور اِس کے لئے اُنہیں کسی دوسرے فرد یا ادارے کی خدمات بھی حاصل نہیں کرنا پڑیں گی۔

 ماضی میں یہ سبھی کام ناممکن حد تک دشوار ہوتے تھے کیونکہ پاکستان میں ادائیگیاں کرنے کے لئے نہ صرف فیسیں ادا کرنا پڑتی تھیں بلکہ تمام کاروبار آن لائن نہ ہونے کی وجہ سے بھی مشکلات پیش آتی تھیں۔ روشن ڈیجیٹل اکاو¿نٹ درحقیقت اُس روشن پاکستان کی جانب پیشرفت ہے جس میں ’اِی گورننس‘ روزمرہ معمولات پر حاوی ہوگی۔ حکومت نے اپنے حصے کا کام تو کر دیا ہے کہ حکمت عملی اور قواعد وضع کر کے منصوبے کا افتتاح بھی کر دیا گیا ہے اور اب اُمید ہے کہ پاکستانی اِس سہولت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پاکستان میں سرمایہ کاری بھی کریں گے۔

 روشن ڈیجیٹل اکاو¿نٹس 48گھنٹوں میں بذریعہ سفارتخانہ کھولا جا سکتا ہے اور صارفین کی مرضی ہو گی کہ وہ پاکستانی روپے یا کسی غیرملکی کرنسی میں سے جس کا چاہیں انتخاب کر لیں۔ عموماً ڈالر اور پاو¿نڈ سٹرلنگ کے اکاو¿نٹس رکھے جاتے ہیں اور اگر پاکستانی راغب ہوئے تو سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر میں غیرمعمولی اضافہ ہو سکتا ہے۔ نئے اور روشن پاکستان کی تشکیل و تخلیق کے لئے پاکستانیوں کو جس انداز میں شرکت کا موقع دیا گیا ہے وہ اپنی جگہ تاریخی اہمیت کا حامل بھی ہے کیونکہ ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ پاکستان کی کسی وفاقی حکومت نے اُن 90 لاکھ پاکستانیوں کی مشکلات کا احساس کیا ہے‘ جو بیرون ملک مقیم ہیں۔ تصور کریں کہ ہر سال بیرون ملک پاکستانی اپنے خاندانوں کی کفالت کےلئے قریب 23 ارب ڈالر ترسیلات زر کرتے ہیں اور فیصلہ سازوں کو اُمید ہے کہ ”روشن ڈیجیٹل اکاو¿نٹ“ سے اِن ترسیلات زر میں مزید اضافہ ہو گا جس سے حکومت کے لئے قرضوں کا بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی۔

 سٹیٹ بینک آف پاکستان نے آٹھ پاکستانی کمرشل بینکوں (بینک الفلاح‘ فیصل بینک‘ میزان بینک‘ مسلم کمرشل‘ سامبا بینک‘ سٹینڈرڈ چارٹرڈ‘ یونائٹیڈ بینک اور حبیب بینک) کو اجازت دی ہے کہ وہ ڈیجیٹل اکاو¿نٹ متعارف کروائیں۔بیرون ملک سے ترسیلات زر کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور اِسے زیادہ سے زیادہ ممکن بنانے کےلئے اگر حکومت بیرون ملک پاکستان کو زیادہ شرح تبادلہ پر پاکستانی روپیہ آفر کرے تو اِس سے ترسیلات زر میں غیرمعمولی اضافہ ممکن ہے۔ مثلاً اگر مارکیٹ میں ایک ڈالر کے عوض 170 روپے مل رہے ہیں تو روشن پاکستان اکاو¿نٹس کے ذریعے فی ڈالر 180 یا 190 روپے دیئے جائیں۔ اِس طرح بیرون ملک پاکستانیوں کی ترجیح ہو گی کہ وہ ڈالر کی بجائے پاکستانی روپے میں اکاﺅنٹ کھولیں گے کیونکہ اِنہیں ایسی صورت میں زیادہ رقم مل رہی ہوگی جبکہ پاکستان کو زرمبادلہ ہاتھ آئے گا‘ جس کے لئے اُسے سخت شرائط اور بھاری سود پر قرض لینا پڑتا ہے۔

 عجیب منطق ہے کہ قرضوں پر سود دینے پر تو کسی کو اعتراض نہیں چاہے یہ سود کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو لیکن پاکستانیوں کو فائدہ پہنچا کر بیرونی قرضوں میں کمی جیسی حکمت عملی اختیار کرنے پر غور نہیں کیا جا رہا۔ وزیراعظم عمران خان نے بیرون ملک پاکستانیوں کو بینکنگ کی سہولت فراہم کرنے کے لئے روشن ڈیجیٹل اکاو¿نٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا کہ مذکورہ اکاو¿نٹس کروڑوں نان ریذیڈنٹ پاکستانیوں کو فنڈ ٹرانسفرز‘ بلوں کی ادائیگی اور پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق سرگرمیوں کے حوالے سے جدید بینکنگ سہولیات فراہم کی جائیں گی لیکن صرف سہولیات کی فراہمی ہی کافی نہیں بلکہ اُس نظام کو بھی فعال بنانا ہے جس میں وسعت کی گنجائش تو موجود ہے لیکن آن لائن وسائل پر انحصار نہیں ہو رہا۔ مثال کے طور پر سرکاری فیسوں کی وصولی کے لئے آن لائن طریقہ¿ کار وضع نہیں اور نہ ہی آن لائن معلومات فراہم کرنے میں ادارے خاطرخواہ دلچسپی لیتے ہیں۔

 تحریک انصاف نے اگر ایک بڑے کام کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے تو اِسے مکمل طور ادا کرنے کے لئے اُن ضمنی شعبوں کی ڈیجیٹائزیشن پر بھی توجہ دینی ہوگی‘ جس کے بغیر ڈیجیٹل اکاو¿نٹ تن تنہا کافی نہیں۔ قوموں کی تاریخ میں ایسے عہدساز فیصلے تبدیلی کا مظہر و عکاس ثابت ہوتے ہیں لیکن ٹیکنالوجی سے استفادے کے ساتھ اُس سوچ کو بھی بدلنا ہوگا‘ جو ٹیکنالوجی کی راہ میں حائل ہے اور حکومتی دفاتر میں انتظامی فیصلوں کے نگران و منتظمین کے لئے ٹیکنالوجی کو سمجھنا اور مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس کی اہمیت کا ادراک کرنے کےلئے خواندگی کا بھی اِہتمام ہونا چاہئے ۔