جب ریاست اپنے فرائض سے غافل ہوجاتی ہے تو پھر المیے جنم لینے لگتے ہیں ہمارے لیے تو خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق اعظم ؓفارمولہ دے گئے ہیں دریا کنارے کتا بھوکا مرے تو ریاست ذمہ دار ہوگی آئین میں بھی بنیادی انسانی حقوق کے ضمن میں بچوں کےلئے تعلیم اوردیگر سہولیات کی ضمانت موجودہے مگر اس کے باوجود ہمارے ہاں بے گھر بچے جن کو عرف عام میں اب سٹریٹ چلڈرن کہاجاتاہے تعداد میں مسلسل بڑھتے جارہے ہیں جو ریاستی پالیسیو ں کی ناکامی اور ماضی کی غفلت کی ایک زندہ مثال ہے۔پاکستان میں بچے معاشرے اور ریاستوں کے ہاتھوں کئی قسم کے تشدد اور استحصال کا شکار ہوتے ہیں سڑکوں پر بچوں کو پولیس اور معاشرے کے ہاتھوں زیادتی ، اذیتوں حتیٰ کہ موت تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے نو عمر بچے جب قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں
تو انہیں جرم ثابت ہونے کے بعد جتنی مدت سزا کاٹنی ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ عرصہ مقدمے کے دوران گزر جاتا ہے انہیں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں لایا جاتا ہے، وطن عزیز میں اندازً 50 فیصد بچے اپنی عمر پرائمری تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی سکول چھوڑ جاتے ہیں اکثر اوقات جسمانی سزائیںسکول چھوڑنے کی وجہ بتائی جاتی ہے گلی کوچوں کے زیادہ تر بچے یتیم اور بے آسرا ہوتے ہیں ماں باپ یا دونوں کی عدم موجودگی سے گلیاں ان بچوں کا گھر بن جاتی ہیں پوری دنیا میں گلیوں میں آزادانہ طور پر رہنے والے بچوں کی تعداد 10 کروڑ سے زائد ہے جبکہ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ رواں سال میں یہ تعداد موجودہ تعداد سے 7,6 گنا بڑھ سکتی ہے ایک خبر کے مطابق اس وقت لاہور میں 11 ہزار پشاور میں9 ہزار ، کوئٹہ میں 5 ہزار ، راولپنڈی میں 5 ہزار کے قریب بچے گلی کوچوں میں رہتے ہیں ایسے بچوں کی عمریں 10 سے 12 سال کے درمیان ہوتی ہیں لیکن 6 سال یا اس سے زیادہ عمر کے بچے بھی گلی کوچوں میں نظر آتے ہیں۔ مہذب معاشروں اور ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کی تعلیم اور صحت کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے یہاں تک کہ اکثر ممالک میں 18 سال تک بچوں کی تعلیم ، پرورش اور صحت کی ذمہ دای بھی ریاست کی ہوتی ہے۔
اور جب لڑکے اور لڑکیاں لکھ پڑھ کر فارغ ہوتے ہیں تو پھر انہیں روزگار کی فراہمی بھی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن پسماندہ اور غریب ممالک میں بچوں کی پرورش ، تعلیم اور صحت کی ذمہ داری کوئی نہیں لیتا ۔ اس کے نتیجے میں گلی کوچوں میں غریب بچے جب جوان ہوتے ہیں تو یہ معاشرے یا ریاست سے انتقام لینے کےلئے جرائم پیشہ بن جاتے ہیں گویا وہ جس افسوس ناک عمل سے گزر کرجوان ہوتے ہیں تو پھر وہ اس عمل کے رد عمل کے طور پر مجرم بن جاتے ہیں یا مجرموں کے آلہ کار بن جاتے ہیںبچے غریب ہوں، بے آسرا ہوں ، یتیم ہوں یا دولت مند گھرانوں کے ہوں ، یہ سب ملک کا مستقبل ہوتے ہیں اگر ان کی مناسب طریق پر پرورش کی جائے ، انہیں تعلیم و تربیت کے مواقع میسر ہوں تو بلا شبہ یہ ملک کا تابناک مستقبل ہوں گے بصورت دیگر یہ ملک وقوم کے لئے کلنک کے ٹیکے بن جائیں گے۔ ہمارے ملک میں اہل ثروت حضرات یا مخیر لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اگر یہ سب غریب بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھائیں تو غریب بچوں کا مستقبل تابناک ہوسکتا ہے اور یہی بے سہارا اور گلی کوچوں کے بچے ملک کا باگ ڈورسنبھالنے والے ہوں گے۔
گویا سارے بچے ہمارا اور ہمارے ملک کا مستقبل ہیں ان کی مدد کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ گو اس گئے گزرے دور میں بھی ہمارے ہاں بعض ایسے رفاعی ادارے موجود ہیں جو اپنی بساط کے مطابق نادار اور بے سہارا بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں لیکن یہ تعداد کم ہے اس میں معروضی حالات کے مطابق اضافہ کی ضرورت ہے ۔ اس حوالہ سے ہمارے ہاں بعض سرکاری ادارے بھی موجود ہیں لیکن ان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے اور یہ جن مقاصد کی خاطر بنائے گئے ہیں ان مقاصد کی تکمیل کے لئے دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے حکومت اگر ایسے اداروں کو متحرک اور فعال بنائے تو مطلوبہ مقاصد با آسانی حاصل کئے جاسکتے ہیں ، این جی اوز بھی یہاں بڑی تعداد میں موجود ہیںان میں بچوں کی فلاح وبہبود کے حوالہ سے بھی این جی اوز کام کررہی ہیں اگریہ سب گلی کوچوں میں رہنے والے بچوں کی ذمہ داری قبول کریں تو اس سے ان معصوم بچوں کی احسن طریق سے دیکھ بھال ممکن ہوسکے گی ہمارے صوبہ میں اگرچہ اس سلسلہ میں زمونگ کور کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ادارے کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اس کادائرہ کار بھی بڑھایا جائے کیونکہ جس تیز ی سے غربت اور بیروزگاری اپنے پنجے گاڑتی جارہی ہے اس سے بے گھر بچوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے ان بچوں کو مستقبل میں کارآمدشہری بنانے کےلئے تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تربیت کی فراہمی پربھی توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک ان کو ہنرمند نہیں بنایا جائے گا غربت اوربیروزگاری ان کو گلیوں میں ہی گھسیٹتی پھرے گی ۔