خاتون کی اجتماعی آبرو ریزی کی ایک واردات (سانحے) نے فیصلہ سازوں کی سوچ کو بدل دیا ہے جبکہ عوام کے صبر کا پیمانہ پہلے ہی لبریز تھا اور اِس بات کا مطالبہ بار بار کیا جا رہا تھا کہ خواتین کے خلاف جملہ جرائم بشمول عصمت دری سے متعلق سزاو¿ں کو زیادہ سخت اور اِن پر عمل درآمد کو آسان بنایا جائے۔ ایسی عملی مثالیں قائم کی جائیں جس سے خواتین کے خلاف عمومی و خصوصی جرائم کرنے والے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سزاو¿ں کا خوف محسوس کریں لیکن ہر جرم کے چند روز تک اُس کی مذمت اور واجبی کاروائیوں کے بعد معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا لیکن اِس مرتبہ صورتحال نہایت ہی فیصلہ کن حد تک مختلف دکھائی دیتی ہے۔ سولہ ستمبر کے روز چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر سربراہی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے قومی شاہراہ پر خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا۔
یہ بات اِس لئے بھی اہم تھی کیونکہ وزیراعظم کی جانب سے ایک اور ”جرم کہانی“ کے بارے میں یہ اُن کا پہلا باضابطہ (آن دی ریکارڈ) اظہارِ خیال تھا‘ جس میں اُنہوں نے کئی پہلوو¿ں کا احاطہ کیا اور اپنی دلی کیفیت اور جذبات بھی قوم کے سامنے رکھ دیئے۔ عمران خان نے کہا ”جب سے یہ حادثہ ہوا ہے تو ہم سوچ رہے ہیں کہ اس کے لئے ایسی قانون سازی کی جائے تاکہ نہ صرف خواتین بلکہ بچوں کو بھی تحفظ ملے اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس مقصد کے لئے تین پہلوو¿ں سے کام کیا جائے۔ اول چیز تو یہ کہ ’جنسی جرائم کی رجسٹریشن ہو۔ ہر واقعے کی تفصیلات مرکزی سطح پر جمع کی جائیں کیونکہ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے اور ہمیں عالمی طور پر مسلمہ اقدامات کے مطابق جرائم اور مجرموں سے نمٹنا چاہئے کیونکہ اِن جرائم کے نفسیاتی پہلو بھی ہوتے ہیں۔ ہمیں بتاتا گیا ہے کہ خواتین کے خلاف جنسی اور دیگر جرائم کرنے والے اپنے جرائم کو دہراتے ہیں۔
لاہور کے قریب ہوئے حالیہ واقعے کا مجرم جسے مفرور قرار دیا جا چکا ہے‘ پہلے بھی جنسی زیادتی کا مرتکب پایا گیا تھا اور اُسے سزا بھی دی گئی تھی لیکن چونکہ وہ سزا عبرتناک نہیں تھی اِس لئے مجرم کی نفسیاتی اصلاح نہیں ہو سکی اور نہ ہی جرائم کی جانب راغب و متوجہ کرنے والے رجحانات ختم ہو سکے۔ وزیراعظم کا پارلیمان سے مشترکہ اجلاس چونکہ حرف بہ حرف پاکستان ٹیلی ویژن کے ذریعے براہ راست نشر ہوا‘ اِس لئے یہ قوم سے خطاب ہی کے زمرے میں شمار ہونا چاہئے اور یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ اُن کے لب و لہجے سے چھلکنے والی سنجیدگی سے بھی اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں تھا کہ وہ کتنے دکھی ہیں اور اِس پورے معاملے کو دل کے کتنا قریب محسوس کر رہے ہیں۔ تقریر کے یہ الفاظ بالخصوص لائق توجہ ہیں کہ ”ممکن ہے کہ اِس دوران مزید کتنے ہی ایسے جرائم ہوئے ہوں لیکن وہ رپورٹ نہیں ہو سکے اور ہمیں معلوم ہے
کہ ہمیشہ بہت کم تعداد میں جنسی زیادتی یا خواتین کے خلاف دیگر جرائم رپورٹ ہوتے ہیں لیکن حکومت ایسے جرائم کے خلاف قانون سازی کر رہی ہے کہ مجرموں کو ”عبرتناک سزائیں“ دی جا سکیں تاکہ یہ اور دوسرے آئندہ ایسا قبیح فعل کرنے سے پہلے خوفزدہ ہوں اور اس کے لئے جلد مسودہ¿ قانون پیش کیا جائے گا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ خواتین سے جنسی زیادتی کے جرائم کو ثابت کرنامشکل ہوتا ہے اور اسی لئے حکومت گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے بھی حکمت عملی بنا رہے ہے تاکہ انہیں عدالت میں مجرم کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وزیراعظم جس ’بسا اُوقات‘ کا ذکر کر رہے تھے پاکستان میں وہ ’اکثر‘ رونما ہوتا ہے اِس لئے صرف عبرتناک سزائیں خواتین کے خلاف یا دیگر جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے مخصوص و مرکوز نہیں ہونی چاہئیں بلکہ غفلت کا ارتکاب تو کہیں نہ کہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بھی ہوتا تو اُن کی کارکردگی کا احتساب کون کرے گا؟ قابل ذکر بات یہ ہے موٹر وے واقعہ میں متاثرہ خاتون نے مدد کے لئے جو بھی دروازہ کھٹکھٹایا وہ اُس کے خلاف جرم ہونے تک بند رہا۔ موٹر وے یا دوسری پولیس کی گشتی ٹیم وہاں نہ پہنچ سکی لاہور سے خاتون کی مدد کے پہنچنے والے رشتہ دار ہی نے مقدمہ درج کروایا۔