لاہور کے قریب موٹر وے پر خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے سے پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ حکومت نے زیادتی کے مجرموں کی جنسی صلاحیت ختم کرنے کےلئے قانون لانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے جنسی زیادتی کے مجرموں کو آپریشن یا کیمیائی مواد کے ذریعے نامرد بنانے کا قانون لانے کی منظوری دےدی ہے۔ وزیراعظم کی منظوری کے بعد قانونی ٹیم نے بل کے مسودے پر کام شروع کردیا ہے،وزیراعظم کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کے واقعے میں ملوث عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں ، انہیں سرعام لٹکادینا چاہئے تاکہ دوسرے لوگ عبرت پکڑ سکیں۔وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ اگر مرد اپنے آپکو قابو نہیں کرسکتے تو انہیں گھروں میں بند کریں۔ ہمیں کیپٹل سزا پر بھی سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہئے انہوں نے کہا کہ بہت سے ممالک میں کیپٹل سزا دی گئی مگر جرائم نہیں رکے۔ بعض ممالک میں کیمیائی مواد سے نامرد کردیئے جانے کی سزا نافذ ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر محمد جاوید عباسی نے جنسی استحصال اور عصمت دری کے ملزمان کو سزائے موت دینے سے متعلق ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کر دیاہے بل میں بچوں سے جنسی زیادتی اور ریپ کے ملزمان کو سرعام پھانسی دینے کی ترمیم شامل کی گئی ہے۔ بل میں عمر قید کے ملزم کو موت تک قید رکھنے کی تجویز بھی دی گئی ہے اور زیادتی کے مقدمات کی سیشن کورٹ کے بجائے ہائیکورٹ میں سماعت کی تجویز بھی ترمیم میں شامل کی ہے۔یہ تجویز بھی ہے کہ عدالتوں کو ایسے مقدمات کا فیصلہ 2ماہ میں کرنے کاپابند بنایاجائے۔ سزا کا اطلاق 18سال تک کی عمر کی بچیوں اور خواتین سے زیادتی کے واقعات پر ہوگا۔خواتین اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات مغربی معاشروں میں عام ہیں اس لئے انہیں زیادہ اچھالا نہیں جاتا۔لیکن اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت خداداد پاکستان میں اس قسم کے واقعات افسوس ناک ہیں اس سے بھی زیادہ افسوس ناک اس واقعے کو میڈیا میں اچھالنا ہے۔الیکٹرانک میڈیا اس واقعے کو مرچ مصالحہ لگا کر اس انداز سے پیش کررہی ہے گویا اس سے ملک کی ساکھ ، عزت اور وقار میں اضافہ ہواہے۔حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے جنسی زیادتی کے واقعات میں ملوث عناصر کو عبرت ناک سزائیں دینے کے عزم کا اظہار قابل اطمینان ہے۔ یہی موقع ہے کہ پارلیمنٹ قوم کے لئے شرمندگی کا باعث بننے والے واقعات کو روکنے کےلئے فوری طور پر جامع اور موثر قانون سازی کرے‘ اسلام میں چور کے ہاتھ کاٹنے اور زناکار کو سنگسار کرنے کا قانون موجود ہے۔
اگر اسلام کے تعزیری قوانین کو ہی ملکی قانون کا حصہ بنایاجائے،پولیس کو ایسے واقعات کا چالان ایک ہفتے میں عدالت میں پیش کرنے اور عدالتوں کو ایک ماہ کے اندر مقدمات کا فیصلہ کرنےکا پابند بنایا جائے تو جنسی زیادتی کے واقعات کا خاتمہ یقینی ہے۔ پولیس کے تفتیشی نظام اور جسٹس سسٹم میں خامیوں کا سماج دشمن عناصر بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ارباب اختیار و اقتدار دانستہ طور پر سخت قوانین کے نفاذ سے پس و پیش اس وجہ سے کر رہے ہیں کہ ان واقعات کے تانے بانے اقتدارکے ایوانوں تک بھی پہنچتے ہیں۔ پانامہ رپورٹ میں پاکستان کی ساڑھے چار سو شخصیات کی بیرون ملک جائیدادوں ، آف شور کمپنیوں اور اربوں ڈالر کے بینک بیلنس کا انکشاف ہوا تھا۔ تین سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود کسی کو سزا دی جاسکی اور نہ ہی لوٹی گئی ایک پائی وصول کی جاسکی۔اگر یہی الزامات عام پاکستانیوں پر لگے ہوتے تو جیلیں بھر جاتیںاور ملزموں کی جائیدادیں نیلام ہوتیں شاید یہی ہماری معاشی، معاشرتی اور اخلاقی انحطاط کی بنیادی وجہ بھی ہے۔
قانون کی ہر کتاب اور ارباب اقتدار کے ہر بھاشن میں یہ گھسا پٹا جملہ شامل ہوتاہے کہ قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور انہیں مساوی حقوق حاصل ہیں لیکن عملی طور پر کبھی بھی آقا و گدا کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکا گیا۔غریب آدمی اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے دس بیس روپے کی چوری کرے تو اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایاجاتا ہے پولیس اسے فوری طور پر گرفتار بھی کرلیتی ہے اور شہر بھر میں ہونے والے جرائم کا اس سے اعتراف کروایا جاتا ہے پھر اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے‘وکیل کرنے کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے وہ آدھی یا ساری عمر جیل میں گزار دیتا ہے۔ جبکہ قومی خزانے سے اربوں روپے لوٹنے والوں پر پولیس ہاتھ ڈال سکتی ہے نہ ہی عدالتیں اسے سزا دے سکتی ہیں۔عمران خان کی قیادت میں موجودہ حکومت قومی مجرموں کو نشان عبرت بنانے کے عزم کا باربار اعادہ کرتی ہیں دیکھتے ہیں کہ وہ ملک میں قانون کی حاکمیت قائم کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔