ملک بھرمیں کان کنوں کو انتہائی مشکل حالات کار میں کام کرنا پڑرہاہے ان کی طر ف سے ہر دور میں آنکھیں بندرکھنے کی روش اختیار رکھی گئی جس کی وجہ سے صورتحال روزبروز سنگین ترہوتی جارہی ہے شعبہ کان کنی کام کرنے والے لوگوں کی اکثریت کاتعلق خیبرپختونخوا سے ہے جو نہ صرف اپنے صوبہ بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی جانوں پر کھیل کر دوقت کی روٹی کے حصول میں مصروف ہیں ہر ماہ ملک کے کسی نہ کسی حادثے میں معدنیات کے کانوں میں کوئی نہ کوئی حادثہ رونما ہورہاہے جس میں بے گناہ اوربد قسمت کان کن جاں بحق ہورہے ہیں ہر بار حادثے کے بعد بیانات آتے ہیں احتجاج ہوتاہے اعلانات کئے جاتے ہیں اورپھر معاملہ ٹھپ اورکسی نئے حادثے کاانتظارہونے لگتاہے حال ہی میں ضلع مہمند کی تحصیل صافی کے مقام زیارت میں مشہور سنگ مرمر کی کان کے حادثے میں جاں بحق افراد کی تعداد 22 تک پہنچ چکی ہے جبکہ 7لاپتہ ہیں 11 مزدور زخمی ہو ئے ٗ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے حادثہ کے متاثرین کے لئے امدادی پیکج کا اعلان کیا جس کے مطابق حادثے میں جاں بحق افراد کے لواحقین کو نو لاکھ روپے جبکہ حادثے کے زخمیوں کو ایک لاکھ روپے فی کس امداد دی گئی ٗ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر کہا کہ آزمائش کی اس گھڑی میں متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے‘ ان کی ہرممکن مدد کی جائے گی ٗوزیراعلیٰ کی خصوصی ہدایت پر ڈی جی پی ڈی ایم اے، ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122 اور ڈائریکٹر ایڈمن پی ڈی ایم اے نے ماربل مائنز کے حادثے سے متاثرہ علاقے کا فوری دورہ کیا اور امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔ آئی جی ایف سی راحت نسیم نے بھی علاقے کا دورہ کر کے لواحقین کو ایک، ایک لاکھ اور زخمیوں کو 50، 50 ہزار اور ملازمت دینے کا اعلان کیا علاقے میں ہیوی مشینری نہ پہنچ سکنے کے باعث امدادی کاموں میں مشکلات درپیش رہیں کمشنر پشاور صوبائی وزراء و دیگر مقامی عسکری اور سول حکام نے متاثرہ مائنز کا معائنہ کیا۔ وزیر محنت و ثقافت شوکت یوسفزئی نے بھی زیارت ماربل مائنز حادثہ کی جگہ کا دورہ کیا علاقہ کے عمائدین سے ملاقات کی میڈیا سے گفتگو میں وزیر محنت کا کہنا تھا کہ واقعہ کی جامع تحقیقات ہوں گی اورذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی جائے گی انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں قانون سازی بھی کی جا رہی ہے‘ صوبہ کی تاریخ میں ایک بڑا معدنی حادثہ تھا یہی وجہ تھی کہ سیاسی رہنماؤں نے بھی علاقے کادورہ کرکے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں جس طرح پہلے کہاگیاکہ پاکستان میں مائنز کے حادثات تواتر سے ہو رہے ہیں جبکہ حکومت مائنز مالکان اور ٹھیکیداروں کی طرف سے کان کنوں کے تحفظ کے لئے کچھ نہیں کیا جا ٹھیکیدار کروڑوں کماتے ہیں لیکن ان کے پاس نہ تو جدید مشینری ہوتی ہے نہ حادثے کی صورت میں مناسب طبی سہولیات ہوتی ہیں اس ضمن میں معدنیات محکمہ کی کارگزاری بھی مایوس کن ہے اگر اس کے پاس اس حوالہ سے قانون موجود ہیں اور لازمی بات ہے کہ کان کنوں کے تحفظ بارے کسی حد تک قوانین ضرور موجود ہیں اگر ان قوانین پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے تو حادثات کی صورت میں محکمہ مائنز، مالکان اور ٹھیکیداران اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ صوبائی وزیر محنت نے مائنز حادثات کے حوالہ سے محکمہ معدنیات کے ساتھ مل کر قانون سازی کی بات کی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حکومت ایسے حادثات سے بچاؤ کی سوچ رکھتی ہے قانون سازی جتنی جلد ہو سکے ہونی چاہیے اس کے ساتھ ساتھ مائنز مالکان اور ٹھیکیداران کے مابین جب معاہدہ ہوتا ہے تو اس میں بھی دونوں کی طرف سے کان کنوں کے تحفظ کو ممکن بنانے کی وضاحت موجود ہونی چاہئے نیز اس بات کو بھی ممکن بنایا جائے کہ کان کنی میں جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جائے فرسودہ طریقوں سے کان کنی سے قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے اس لئے ٹھیکیداروں کو واشگاف الفاظ میں کہہ دینا چاہئے کہ اب فرسودہ طریقوں سے کام نہیں چلے گا بلکہ کان کنی کے لئے عصری تقاضوں کے مطابق جدید مشینری، کان کنوں کے لئے سہولیات اور بیماری یا حادثہ کی صورت میں کان کنوں کو بروقت طبی امداد کی فراہمی کے بغیر کان کنی کی اجازت نہیں دینی چاہئے اس ضمن میں ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی ہے کہ حادثہ کے نتیجہ میں جو ماربل نیچے گرا پڑاہے اسے یکمشت نیلام کرکے یہی رقم یا کم ازکم آدھی رقم حادثے میں جاں بحق افراد کے لواحقین اور زخمیوں میں تقسیم کی جائے کیونکہ یہ انہی کاحق بنتاہے حکومت کو اس حوالہ سے بھی ضرور سوچناچاہئے۔