غیرحاضری

اہمیت و ضرورت برقرار ہے لیکن قانون ساز ایوانوں کو حسب منصب توقیر اور افادیت حاصل نہیں اور اگر صورتحال مختلف ہوتی تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں صرف الزام تراشیوں پر مبنی تقاریر میں وقت ضائع نہ ہو رہا ہوتا۔ عجیب صورتحال ہے کہ قانون ساز ایوانوں کے اراکین نے قانون سازی میں اپنے لئے مراعات اور استثنیٰ شامل کر رکھے ہیں اور ایسی قانون سازی جو قومی مفاد کے پیش نظر حسب ضرورت کی جائے تو اُس کے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد ہونے کی اُمید کم ہی رہتی ہے۔ پاکستان کے پارلیمانی نظام کو اِس طرح بنایا گیا ہے کہ اگر کسی جماعت کی قومی اسمبلی ایوان میں اکثریت ہو بھی تب بھی وہ سینیٹ میں اکثریت نہ رکھتی ہو تاکہ کوئی ایک جماعت حسب منشا قوانین میں ترامیم کرنے کا کلی اختیار نہ رکھے اور قوانین کی منظوری کے ساتھ اُن کے اچھے بُرے پہلوؤں پر غور ہوتا رہے۔ اِس مقصد کے لئے ایوان زریں اور ایوان بالا تشکیل دیئے گئے ہیں‘ جہاں دو الگ الگ سیاسی جماعتوں کی اکثریت رہتی ہے۔ اِسی طرح قانون سازی کا ایک طریقہئ یہ ہے کہ ایوان زریں اور ایوان بالا کے اراکین کا ایک مشترکہ اجلاس طلب کر کے قوانین بحث و مباحثے کے لئے پیش کئے جائیں اور اُن پر مرحلہ وار غور ہونے کے بعد منظور یا مسترد کیا جائے۔ سولہ ستمبر کے روز پاکستان میں قوانین سازی کے حوالے سے ایک نہایت ہی اہم دن تھا‘ جب حزب اختلاف کے احتجاج اور عددی اکثریت کو کامیاب حکمت عملی سے اقلیت میں بدل دیا گیا اور حکومت جیسا چاہتی تھی ویسے ہی قوانین منظور کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ منظور ہونے والے قوانین میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق آٹھ اہم قوانین کی منظوری اگرچہ کسی ایک سیاسی جماعت کی کارکردگی قرار نہیں دینا چاہئے کہ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہوتی یہ قانون سازی ہو کر رہنا تھی۔ مذکورہ بل کی منظوری کے لئے بظاہر حکومت کی حمایت کرنے والوں کی تعداد کم تھی لیکن ایک خاص تعداد میں اراکین کی غیرحاضری کے سبب حکومت کی اقلیت اکثریت اور حزب اختلاف کی اکثریت اقلیت میں بدل گئی اُن سیاسی حلقوں کے لئے یہ بات پریشان کن ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں قوانین بحث و مباحثوں کے ذریعے نہیں بلکہ نہایت ہی عجلت اور آخری لمحات میں منظور کروائے جاتے ہیں‘ جن کی تائید اور مخالفت کرنے والوں کو اپنے کئے پر یقین بھی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز نہ صرف ماہانہ تنخواہیں باقاعدگی سے وصول کرتے ہیں بلکہ علاوہ ازیں اپنا وقت اور خدمات دینے کا خصوصی معاوضہ‘ خصوصی مراعات کی صورت وصول کرتے ہیں اور چونکہ یہ رقم عوام کے ٹیکس سے ادا کی جاتی ہے‘ اِس لئے ایک عام آدمی یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ قانون سازی کے دن ”غیرحاضری“ کا سبب کیا تھا اور بنا درخواست ایوان کے کسی اجلاس میں شرکت نہ کرنے والے رکن کو دی جانے والی مراعات اُس وقت تک ضبط کر دینی چاہئیں جب تک وہ عدالت کے سامنے پیش ہو کر‘ عدالت کی تسلی و تشفی کے مطابق جواب نہیں دیتا۔ اِس صورت میں پارلیمان کی آزاد و خودمختار اور بالاتر حیثیت پر بظاہر سمجھوتہ ہوتا دکھائی دے گا لیکن حقیقت میں یہ پارلیمان کی آزادی ہی کی ضرورت ہے کہ اِس کے اراکین کو اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں احساس دلایا جائے اور اگر وہ اپنے بنیادی کام ہی سے آگاہ نہیں تو متعلقہ آئینی شقوں‘ انتخابات سے متعلق قواعد اور پارلیمان کے ضوابط میں ترامیم کر کے رکنیت ختم کرنے جیسی سزا دی جا سکتی ہے‘ جس سے اراکین اسمبلی خود کو پابند سمجھیں گے کہ وہ جس کام کا معاوضہ وصول کر رہے ہیں تو اُس کو سرانجام بھی دیں گے۔یہ سوال اپنی جگہ اہم اور جواب طلب ہے کہ ایک انتہائی اہم قانون سازی میں جو اراکین شریک نہیں ہوسکے اُن کی شرکت یقینی بنانے کے لئے پارلیمانی قائدین نے کتنی دلچسپی سے کام لیا؟ اگر حال میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے تو کیا پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایسی کوئی ایک مثال موجود ہے جب قانون سازی کے ایسے ہی کسی موقع پر اِس قسم کی صورتحال درپیش نہ رہی ہو؟ قانون سازی میں اگر 100فیصد اراکین کی شمولیت غیرحاضر اراکین کو کیوں اراکین اسمبلی کو ایوان میں نہیں لاسکتے ہیں؟ کیا عوام یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ پارلیمان ادنیٰ ہو یا اعلیٰ‘ قومی ہو یا صوبائی اِس کے اراکین اپنے فرائض سے اتنے لاتعلق اور غافل کیوں ہیں؟ یہ سوال جمہوریت کے مستقبل اور پاکستان کے مسائل کا پارلیمانی نظام میں حل تلاش کرتے ہوئے دلائل دینے والوں کے لئے بھی دعوت فکر ہے جو یقینا اِس پوری صورتحال پر نظریں جمائے بیٹھے ہوں گے۔ وقت ہے کہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کی بجائے پارلیمان کی عظمت و افادیت‘ اہمیت اُور ضرورت کے ادارک و فہم میں اضافے کا مطالبہ کیا جائے۔