نیویارک کے ایک نیلام گھر میں ایک ڈائنوسار کا ڈھانچہ فروخت کےلیے رکھا گیا ہے جس کی بولی 80 لاکھ ڈالر یعنی تقریباً ایک ارب 33 کروڑ پاکستانی روپے (133 کروڑ پاکستانی روپے) سے جلد ہی شروع ہونے والی ہے۔
یہ ڈھانچہ، جو دراصل ڈائنوسار کا ’’رکاز‘‘ (فوسل) ہے، آج سے ساڑھے چھ کروڑ (65 ملین) سال پہلے پائے جانے والے ایک گوشت خور ڈائنوسار ’’ٹائرانوسارس ریکس‘‘ (ٹی ریکس) کا ہے جو اپنی زندگی میں 37 فٹ سے بھی زیادہ لمبا تھا۔
ڈائنوسار کا یہ ڈھانچہ ایک نجی ادارے ’’بلیک ہلز انسٹی ٹیوٹ آف جیولاجیکل ریسرچ انکارپوریٹڈ‘‘ کی ملکیت ہے جو لاکھوں کروڑوں سال قدیم جانوروں کے ’’اصلی‘‘ رکازات کے علاوہ ان کی ہوبہو نقلیں بھی فروخت کرتا ہے۔ البتہ، ٹی ریکس کا یہ ڈھانچہ بالکل اصلی ہے اور اسی وجہ سے اس کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے جسے اس ادارے نے ’’اسٹین دی ٹی ریکس‘‘ کا نام دیا ہے۔
’’اسٹین‘‘ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ یہ شمالی امریکا سے ملنے والے، ڈائنوسار کے مکمل ترین رکازات میں شامل ہے۔ یہ اتنا مکمل اور محفوظ ہے کہ اس کی ہڈیوں پر دوسرے (اور شاید اسی جیسے) گوشت خور ڈائنوساروں کے دانتوں کے نشانات موجود ہیں۔
اگرچہ سائنسدانوں اور سائنسی حلقوں میں رکازات کی نیلامی کو غلط سمجھا جاتا ہے لیکن پھر بھی امریکا سمیت کئی ممالک میں اسے قانونی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے مالدار لوگ شوقیہ طور پر رکازات (فوسلز) خریدتے ہیں اور اپنے ذاتی عجائب گھروں میں سجاتے ہیں۔
نکولس کیج اور لیونارڈو ڈی کاپریو جیسے مشہور ہالی ووڈ اداکار بھی ڈائنوسار کی ہڈیاں (فوسلز) جمع کرنے کے شوقین ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 80 لاکھ ڈالر سے شروع ہونے والی نیلامی کب شروع ہوگی اور ٹائرانوسارس ریکس کا یہ تقریباً مکمل فوسل کتنے میں نیلام ہوگا۔