دل کے شدید دورے یا ہارٹ اٹیک کے بعد اکثر اوقات دل کے پٹھے،عضلات یا پھر خلیات مردہ ہوجاتے ہیں۔ اس کا انحصار ہارٹ اٹیک کی شدت پر ہوتا ہے لیکن اب امید پیدا ہوئی ہے کہ اگر ایک قسم کی سمندری گھاس ( سی ویڈ) اور خلیاتِ ساق (اسٹیم سیل) پرمشتمل کیپسول سےٹوٹے دل کی مرمت کی جاسکتی ہے۔
یہ کیپسول جسامت میں چاول کے دانے کے برابر ہےاور اسے دل کے مریض میں سینے میں سوراخ کرکے دل کے متاثرہ مقام پر رکھا جاسکتا ہے۔ توقع ہے انسانوں کے لیے اگر 30 ہزار اسٹیم سیل پر مشتمل کیپسول استعمال کیا جائے تو دل کے خراب مقام کو بحال کیا جاسکتا ہے۔
خلیاتِ ساق ایسے خلیات ہوتے ہیں جو آگے چل کر جسم کے کسی بھی حصے کے خلیات (سیل) میں بدل جاتے ہیں۔ عموماً یہ ہڈیوں کے گودے میں بنتے ہیں۔ خلیاتِ ساق چند دنوں یا ہفتوں میں دل کے خلیات کا روپ دھار کر متاثرہ مقام کو بحال کرسکتے ہیں۔
اگر دل کو خون کی فراہمی شدید متاثر ہوجائے تو دل کا دورہ پڑجاتا ہے جس سے دل کے بعض عضلات ہمیشہ کے لیے متاثر ہوجاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے بعض مریض دوسرا یا تیسرا ہارٹ اٹیک نہیں جھیل سکتے اور مرجاتے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگ بڑی تعداد میں اس کا شکار ہوکر لقمہ اجل بنتے ہیں اور صرف برطانیہ میں ہی ایک لاکھ افراد اسے جھیلتے ہوئے فوت ہوجاتے ہیں۔
اس سے قبل خلیاتِ ساق کو دل پر ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوسکا کیونکہ جسم کا اندرونی دفاعی نظام اسے بیرونی حملہ آور سمجھتے ہوئے مسترد کردیتا ہے۔ لیکن سمندری گھاس کے کیپسول خلیات کو دل پر برقرار رکھتے ہوئے جسم کی مزاحمت کو روک سکتے ہیں۔
سمندری گھاس میں ایک مرکب الگینیٹ ہوتا ہے جو پانی میں مل کر نرم جیل بن جاتا ہے جسے کئی ادویات یا ادویہ سازی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ دوم یہ جسم کے امنیاتی نظام کو ردِ عمل پر نہیں اکساتا اور اس میں رکھی دوا دھیرے دھیرے جسم میں نفوذ کرتی رہتی ہے۔
رائس یونیورسٹی اور بیلر کالج آف میڈیسنکے سائنسدانوں نے ڈیڑھ ملی میٹر کا ایک کیپسول بنایا ہے جو جسم میں جاکر آہستگی سے خلیاتِ ساق خارج کرتا رہتا ہے۔
اس کے بعد کئی چوہوں کو ہارٹ اٹیک کے بعد دل کا مریض بنایا گیا اور ان میں کیپسول سے اسٹیم سیل داخل کئے گئے۔ چار ہفتوں بعد سمندری گھاس کے کیپسول نے دل کی مرمت کی جس کی تصدیق خون باہر پھینکنے کی شدت سے کی گئی۔ لیکن جب گھاس کےبغیر ہی اسٹیم سیل لگائے گئے تو صرف 16 فیصد چوہوں میں بہتری دیکھی گئی۔
واضح رہے کہ انسان اور چوہوں کی جسمانی فعلیات میں مماثلت ہوتی ہے اور اسی وجہ سے یہ تحقیق اہم ہے جس کی تفصیلات جرنل بایومٹیریل سائنس کی تازہ اشاعت میں پیش کی گئی ہے۔