غریب پاکستان کے سرمایہ دار حکمراں طبقات کے بارے میں ایک اور انکشاف یہ ہوا ہے کہ ”60 لاکھ (6 ملین) روپے“ سے زائد کی مالی حیثیت رکھنے والے اراکین اسمبلیوں کی کل تعداد 22 ہزار 529 ہے جن سے ایک مالی سال کے دوران کل 27 لاکھ 43 ہزار روپے ٹیکس وصول ہوا۔ یہاں بات اُن نفیس افراد کی ہو رہی ہے جو خود کو قیادت کا حقدار سمجھتے ہیں لیکن کراچی سے پشاور اور کوئٹہ سے چترال تک‘ اِن کی صفوں میں شامل ’حب الوطنوں‘ کی تعداد ”23 ہزار“ سے کم ہے جنہوں نے سالانہ ٹیکس گوشواروں میں رضاکارانہ طور پر اپنی قابل ٹیکس آمدنی 60 لاکھ روپے سے زائد ظاہر کی ہے۔ عجیب و غریب صورتحال ہے کہ جس ملک کے پارلیمینٹرینز کی اکثریت لمبی چوڑی گاڑیوں کے قافلوں میں سفر کریں اور جہاں ایک لینڈ کروزر گاڑی (ZX-V8) کی قیمت ڈھائی سے پانچ کروڑ روپے کے درمیان ہو اور جہاں کے شہر تو کیا دیہی علاقوں کی کچی پکی سڑکوں پر بھی مختلف ماڈلز کی درآمد شدہ لگژری گاڑیاں بشمول ’لینڈ کروزر‘ اتنی بڑی تعداد میں رواں دواں ہوں کہ اُن کا شمار اُنگلیوں پر ممکن نہ ہو وہاں صرف بائیس ہزار پانچ سو پارلیمنٹرینز اپنی آمدنی کے بارے میں یہ بیان دیں کہ اُن کی سالانہ آمدنی ساٹھ لاکھ روپے (پانچ لاکھ روپے مہینہ) سے کم ہے
تو اِس ”حلفیہ کھلے جھوٹ“ کی جس قدر بھی مذمت کی جائے‘ کم ہو گی چونکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں سرمایہ دار ازخود (حسب آمدنی) ٹیکس ادا نہیں کرتے کیونکہ ’ٹیکس چوری کا اپنا ہی نشہ ہے‘ اِس لئے حکومتی سطح پر ایسے ادارے بنائے جاتے ہیں جو ٹیکس چوری کے عمل کو مشکل سے مشکل بنانے کے ساتھ ساتھ اثاثہ جات اور آمدنی پوشیدہ رکھنے والوں پر نظر رکھتے ہیں اور دیکھا یہی گیا ہے کہ جہاں ادارے مضبوط ہوں‘ وہاں حکومت کی ٹیکس آمدنی زیادہ اور جہاں ادارے کمزور ہوں وہاں ٹیکس وصولی کم ہوتی ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں حسب آمدنی ٹیکس ادا نہ کرنے والے ’قانون شکنوں‘ میں قانون سازوں سے معاشرے کے بااثر خواص‘ کاروباری طبقات اور عام آدمی یکساں شریک ہیں اور ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی ’ٹیکس چوری کا وبا‘ پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔
اٹھارہ ستمبر (دوہزاربیس) کے روز پاکستان کے منتخب عوامی نمائندوں اور اُن کے قریبی عزیزواقارب سے ”مالی سال 2018ئ“ کے دوران وصول ہونے والے ٹیکس کے اعدادوشمار جاری کئے گئے جن کے مطابق سب سے زیادہ ٹیکس سندھ سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹرز (پارلیمینٹیرنز) نے ادا کیا جو کل حاصل ہونے والے ٹیکس کا 44.91فیصد ہے۔ دوسرے نمبر پر پنجاب کے اراکین ہیں جنہوں نے 34.99 فیصد‘ تیسرے نمبر پر اسلام آباد سے منتخب ہونے والوں نے 14.77 فیصد‘ چوتھے نمبر پر خیبرپختونخوا کے نمائندوں نے ساڑھے تین فیصد سے کچھ زیادہ یعنی 3.54 فیصد‘ پانچویں نمبر پر بلوچستان کے اراکین 1.67فیصد اور چھٹے نمبر پر شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کے پارلیمینٹیرنز ہیں جن کی ٹیکس میں حصہ داری 0.12 فیصد ہے۔ اِسی طرح باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے والوں کے بارے میں بھی اعدادوشمار ”ٹیکس ڈائریکٹری آف پارلیمینٹرنز 2018ئ“ کا حصہ ہے‘ جس کے مطابق تمام اراکین باقاعدگی سے اپنی آمدنی کے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرواتے کیونکہ اگر وہ ایک مرتبہ یہ سلسلہ شروع کر دیں تو پھر اُنہیں ہر سال گوشوارے جمع کروانے پڑیں گے جو ایک آئینی شرط ہے ٹیکس ڈائریکٹری گزشتہ چند برس سے مرتب ہو رہی ہے اور حالیہ رپورٹ اِس سلسلے کی ’چھٹی دستاویز‘ ہے‘ جس میں اراکین اسمبلی اور اُن کے قریبی عزیزواقارب کے نام شامل ہیں۔ کئی اراکین اسمبلی (پارلیمیٹرینز) نے کمال ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بیوی بچوں کو اِس میں شامل نہیں کیا اور کہا ہے کہ وہ اپنا ذاتی ٹیکس خود ادا کرتے ہیں اور بیوی بچوں کی مالی حیثیت سے اُن کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ عجیب و غریب حکمت ہے‘ جس کی گنجائش قانون و قواعد میں رکھی گئی ہے اور اِس سے بھرپور فائدہ قانون بنانے والے (پارلیمینٹرینز) خود اُٹھا رہے ہیں!
ٹیکس ڈائریکٹری دستاویز ہے اور اِس کے ذریعے قومی مجرموں کی نشاندہی ہو گئی ہے لیکن اگر کوئی دیکھنا اور جاننا چاہے کہ ٹیکس ادائیگی اور وصولی کے نظام میں کیا کچھ خامیاں ہیں تو وہ سب اِس میں بین السطور بیان ہیں۔ اگر کسی ملک کے خواص بھی ٹیکس ادا کرنا ضروری نہ سمجھ رہے ہوں تو حکومتی ادارہ (ایف بی آر) ایک عام آدمی سے کس طرح توقع کر سکتا ہے کہ وہ اپنی آمدنی کے تناسب یعنی درست شرح سے ٹیکس ادا کرے گا‘ جو کہ اُسے کرنا چاہئے! درحقیقت اگر پاکستان کے صرف 3 شعبے درست ہو جائیں تو جنوب ایشیائی خطے میں پاکستان سے زیادہ خوشحال کوئی دوسرا ملک نہیں ہوگا۔ اِن میں پہلا شعبہ پاکستان میں موجود معدنیات کے ذخائر سے فائدہ اٹھانا ہے۔ دوسرا شعبہ ٹیکس وصولی ہے اور تیسرا شعبہ سرکاری اداروں کی اصلاح یعنی اِن کی خدمات اور کارکردگی کی وجہ سے قومی خزانے پر مستقل بوجھ کو اگر ختم کر دیا جائے تو ”پاکستان خوشحال ہو سکتا ہے۔