وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کرپٹ لوگوں سے لوٹی گئی رقم واپس لے کر تعلیم پر لگائی جائے گی ۔ہری پور میں ایک تقریب سے خطاب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال نے پاکستان کے حوالے سے جو خواب دیکھا تھا اس راستے سے ہم بہت دور نکل گئے ہیں۔ ہم غلام نہیں بننا چاہتے ہیں، ہم اپنا راستہ ایجاد کرناچاہتے ہیں ، انگریز کی غلامی والی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا، مغربی دنیا ترقی کرسکتی ہے توہم کیوں نہیں کرسکتے انگریز جب سائنسدان بن سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں بن سکتے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں آگے بڑھنا وقت کی ضرورت ہے ، ہم وہ راستہ ڈھونڈ رہے ہیں جس سے پاکستان ترقی کرسکے، ہمیں اپنے ذہنوں کو آزاد کرکے ترقی کے راستے پر چلنا ہوگا۔ ہماری کوشش ہوگی زیادہ وسائل تعلیم پر لگائیں ، انسانی وسائل کی ترقی کیلئے تعلیم پر خرچ کرنا ہوگا۔
وزیر اعظم کی اس رائے سے اختلاف کی گنجائش نہیں کہ قومی ترقی کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم ضروری ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت تعلیم کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتی رہی ہے تاہم اس حوالے سے اب تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایاگیا۔کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک کو لوٹ کر بیرون ملک منتقل کی گئی رقم وصول کرکے تعلیم پر لگانے کی بات کرکے ہمارے وزیراعظم نے تعلیم کو اپنی ترجیحات کی فہرست کے آخری حصے میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ کرپشن کے پیسے وصول کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔نیب نے پلی بارگین کے ذریعے کچھ رقم چھوٹے اور درمیانی درجے کے کرپٹ سرکاری اہلکاروں سے وصول کی ہے مگر اس رقم سے نیب کے اپنے خرچے پورے نہیں ہوتے۔تعلیم کے لئے کیا بچے گا۔ بڑے چوروں اور لٹیروں سے اب تک ایک پائی بھی وصول نہیں کی جاسکی۔اگرچہ ان کے خلاف درجنوں کی تعداد میں مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں مگر فیصلے ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
لوٹ مار کرنے والوں نے اپنے لئے فرار کے راستے پہلے ہی متعین کردیئے ہیں اس لئے انہوں نے انصاف کے نظام کو اتنا پیچیدہ بنادیا ہے کہ ایک عدالت سے فیصلہ آجائے تو اس کے خلاف دوسری عدالت میں اپیل دائر کی جاتی ہے اور اپیل کے ساتھ کچھ اضافی فائلیں داخل کرکے مقدمہ دوسری عدالت میں منتقل کروایا جاتا ہے۔بہتر ہوگا کہ حکومت بجٹ میں ہی تعلیم کے لئے مناسب رقم مختص کرے اور لوٹی گئی رقم اگر حکومت کرپٹ لوگوں سے نکلواسکے تو اس کے لئے مصارف بہت ہیں اس رقم کو سڑکوں کی تعمیر، بجلی گھر بنانے، یتیم خانے قائم کرنے، لنگر کھولنے، ہسپتال بنانے، یتیموں، بیواﺅں، ناداروں ، معذوروں اور بے سہارا لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک غلامانہ ذہن کی بات ہے وہ اب مقبول عام روایت بن چکی ہے اور روایات کو توڑنا ہمارے ہاں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے پہلے ہی اپنے لئے دو تین درجن محاذ کھول رکھے ہیں اب آقا اور غلام والی روایت کو توڑنے پر آگئے تو ان کے سینکڑوں مزید دشمن پیدا ہوں گے۔
یہاں قدم قدم پر آقائیت اور حاکمیت کا قانون نظر آتا ہے اس روایت کو توڑنے کے لئے حکومت کو افسروں کی تربیت کا پورا نصاب تبدیل کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس نصاب میں ہمارے افسروں کو عوام سے فاصلہ رکھنے اور انہیں ہمیشہ دباﺅ میں رکھنے کی تربیت دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قومی خزانے اور عوام کے ٹیکسوں پر پلنے اورتنخواہ دارملازم ہونے کے باوجود وہ خود کو آقا اور عوام کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔حاکمیت کا نظام بدلنا ہے تو سندھ میں وڈیرہ شاہی، پنجاب میں چوہدراہٹ ، بلوچستان میں سرداری اور خیبر پختونخوا میں خان شاہی کا نظام بدلنا ہوگا کیا حکومت تمام وڈیروں، چوہدریوں، سرداروں اور خوانین کی مخالفت کا خطرہ مول لے سکتی ہے۔ اور تمام افسروں کو عوام کا خادم اور تنخواہ دار ملازم بناسکتی ہے۔ انگریز نے اپنے دور میں ایک سو سال تک یہ نظام رائج کیااور پھر ہمارے لئے ورثے کے طور پر چھوڑ گیا اور ہم گذشتہ ستر سالوں سے اسی نظام سے چمٹے ہوئے ہیں اس سے جان چھڑانا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہے
اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ حکومت ملک میں اسلامی نظام نافذ کرے تمام قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالے۔ استحصالی نظام کا خود بخود خاتمہ ہوگا۔کرپٹ لوگ بھی پکڑے جائیں گے اور اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ سستے اور فوری انصاف کی فراہمی بھی آسان ہوجائے گی اور حکومت کو بھی نظام کی تبدیلی میں زیادہ مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اگر اسلام کا نظام انصاف نافذ ہوا تو چور کے ہاتھ کاٹے جائیں گے۔زناکار کو سرعام سنگسار کیا جائے گا۔ قاتلوں کے سرقلم کئے جائیں گے۔ مقدمات کے فیصلے قاضی کی عدالتوں میں سرسری سماعت کے بعد موقع پر کئے جائیں گے۔ قرآن کے بتائے ہوئے نظام کو نافذ کرنے کی راہ میں بھی وہی عناصر رکاوٹ ہیں جو موجودہ قوانین میں اصلاحات کی راہ میں روڑے اٹکارہے ہیں۔