کورونا وائرس کے حوالے سے نئی نئی تحقیقات جاری ہیں، حال ہی میں وائرس کی مزاحمت کی صلاحیت کا اندازہ لگانے کے لیے ایک تجربہ کیا گیا جس نے ماہرین کو پریشان کردیا۔
یورپی ملک ہنگری میں ہونے والی ایک تحقیق میں محققین نے کورونا وائرس کو ایک سوئی کے سرے سے دبا کر جاننے کی کوشش کہ کتنی طاقت سے یہ کسی غبارے کی طرح پھٹ سکتا ہے، انہوں نے دریافت کیا کہ ایسا ہوتا ہی نہیں۔
تحقیق کے دوران سارس کووڈ 2 کے ایک ذرے کو لیا گیا جو کہ محض 80 نینو میٹرز چوڑا تھا اور نینو سوئی کو استعمال کیا گیا جس کا سرا اس سے بھی چھوٹا تھا۔ اس سرے سے وائرس کو دبایا گیا اور دریافت ہوا کہ وہ کسی الاسٹک کی طرح کام کرتا ہے یعنی دبانے کے بعد جب چھوڑا جاتا ہے تو وہ ایک بار پھول جاتا ہے۔
محققین نے 100 بار ایسا کیا اور ہر بار یہ ذرہ اپنی شکل برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ وائرس حیران کن حد تک مزاحمت کرتا ہے۔
اس تحقیق سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس اب تک کے واقف وائرسز میں سب سے زیادہ لچکدار ہے اور اس کی شکل کو بگاڑنے سے اس کی ساخت اور اندر موجود مواد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
رواں ہفتے ایک چینی یونیورسٹی کی جانب سے اس وائرس کی ساخت کا سب سے تفصیلی خاکہ جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ اس میں بڑی مقدار میں نیوکلک ایسڈ کی مقدار ہوتی ہے جو بہت تنگ جگہ میں جینیاتی ڈیٹا کو اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ وائرس کی مکینیکل اور خود کو ٹھیک کرنے کی خصوصیات ممکنہ طور پر اسے مختلف ماحولیاتی عناصر میں ڈھلنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔