سست رو مذاکرات

بین الافغان مذاکرات کی بجائے بین الافغان ملاقاتوں کا پہلا دور (بارہ ستمبر سے) عالمی توجہات کا مرکز ہے اور ذرائع ابلاغ جن ایک بات کو ”غیرمعمولی توجہ“ دے رہے تھے اُس کا نتیجہ یہ ہے کہ تاحال کوئی معقول پیشرفت نہیں ہو سکی درحقیقت اصل رکاوٹ ’نظریاتی اختلافات‘ کی ہے اور ظاہر ہے کہ افغان حکومت کے لئے شراکت اقتدار مسئلہ نہیں لیکن اُن نظریات سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں جن پر اُن کی سیاسی عمارت بنیاد رکھتی ہے۔ افغان صورتحال سبق آموز ہے جہاں کی سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف عوام کے ذہنوں میں اِس قدر زہر بھرا کہ اب جب اُنہیں ایک دوسرے سے مذاکرات کی ضرورت پیش آئی ہے تو اُنہیں اپنے آپ اور اپنے حلقہئ انتخاب سے ردعمل مل رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قیام امن کے لئے مذاکرات تو شروع ہو گئے لیکن اِن کے اصول و ضوابط اور طریقہئ کار باضابطہ نہیں۔ توقع یہی ہے کہپہلے دور کے بعد مزید اجلاسوں میں مذاکرات کا طریقہ کار اور چند ایسے مرکزی نکات طے ہو جائیں گے‘ جن کی پٹڑی پر یہ گاڑی آگے بڑھے گی۔ جاری مذاکرات کے لئے دونوں فریقین (افغان حکومت اور طالبان) نے تفصیلات طے کرنے کے لئے دو دو نمائندوں کا تقرر کیا تھا لیکن نمائشی پیشرفت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا اور یہ نمائندے امن مذاکرات کے طریقہ کار کو حتمی شکل دینے میں بھی ناکام رہے۔افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے رکن رسول طالب کا کہنا تھا کہ ’ہم نے مذاکرات کے اصول و ضوابط کے حوالے سے پیشرفت کی ہے تاہم ابھی کچھ امور طے ہونا باقی ہیں۔ علاوہ ازیں مذاکرات سے قبل طے شدہ ’بیس نکاتی لائحہ عمل‘ کی سبھی شقوں پر بھی اتفاق نہیں جبکہ حکومت اور طالبان ’مشترکہ سیکرٹریٹ‘ اور ’اختلافی نظریاتی مسائل‘ پر بات چیت کے لئے کمیٹی کے قیام پر اتفاق تو ہے اور اِس بات پر بھی رضامندی ہے کہ اگر امن مذاکرات کی راہ میں کسی مرحلے پر کوئی رکاوٹ آئے تو وہ تو بات چیت معطل کئے بغیر طے کی جائے گی‘ اپنی جگہ غنیمت ہیں۔ بنیادی مشکل اور مرحلہ یہ ہے کہ مذاکرات سست روی کا شکار کیوں ہیں جبکہ عالمی دباؤ سمیت فریقین کی جانب سے آمادگی بھی پائی جاتی ہے تو اِس سلسلے میں تین بنیادی وجوہات کو فہرست کیا جا سکتا ہے۔ طالبان کا اصرار ہے کہ افغانستان میں جنگ سے متعلق معاہدے یا بات چیت کے مراحل میں اُسے ’جہاد‘ کے نام سے پکارا جائے جس پر دوسرا فریق رضامند نہیں اور اب یہ درمیانی راستہ نکالا گیا ہے کہ اِسے ”بڑا مسئلہ“ کہا جائے گا اور اِسی کے عنوان سے اِسے سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ کسی بڑے مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوششیں بھی بڑی ہی ہونی چاہیئں کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ بڑے مسئلے چھوٹی کوششوں سے حل ہوں۔ بین الافغان مذاکرات سے قبل ’اصل مسائل‘ کی تشخیص ہونا باقی ہے‘ جس اتفاق رائے کے بغیر پیشرفت اور مذاکرات کی سمت کا تعین ممکن نہیں ہے۔ ابتدائی مرحلے میں سست روی کی  ایک اور آخری وجہ طالبان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ ہوئے معاہدے کو قانونی حیثیت دینا ہے۔ طالبان چاہتے ہیں کہ اُس معاہدے کو بنیاد تسلیم کیا جائے جبکہ افغان حکومت کی شراکت کے بغیر ہوئے مذکورہ معاہدے سے متعلق حکمراں سیاسی جماعتیں یہ مؤقف رکھتی ہیں کہ اُس کا افغان آئین سے کوئی تعلق اور جوڑ نہیں بنتا۔ طالبان کے لئے سب سے اہم دستاویز امریکہ کے ساتھ معاہدہ ہے‘ جس کی ہر شق کی تعمیل کا مطالبہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں اگر اِس کی کسی بھی شق سے روگردانی کی گئی تو اِس سے بین الافغان مذاکراتی عمل کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔ افغانستان امن اور قیام امن سے میلوں سے دور ہے۔ بین الافغان قیادت کے درمیان مذاکرات کے ساتھ ملک میں پرتشدد کاروائیاں جاری ہیں اور جنگ بندی جیسی پہلی ضرورت بھی تاحال ممکن نہیں ہو سکتی ہے! حالانکہ یہ سب سے پہلے ہونی چاہئے تھی۔ مذاکرات حسب توقع مشکل‘ پیچیدہ اور طویل ثابت ہو رہے ہیں۔