بین الاقوامی سطح پرتحفظ ماحولیات کے لئے کام کرنے والی تنظیم آکس فیم نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کی سات ارب کی آبادی میں امیر ترین افراد کی تعداد چھ کروڑ 63لاکھ ہے۔ مطالعاتی جائزے میں کہاگیا ہے کہ انسان جتنا زیادہ امیر ہوتا ہے اتنے ہی ان کے رویے اور فیصلے ماحول دشمن ہو تے ہیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1990 سے لے کر 2015تک کے عرصے میں امیر لوگ فضا میں دو گنا زیادہ ماحول دشمن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج کی وجہ بنے عالمی ادارے کی رپورٹ میں سیاست دانوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ سیاستدان عوام سے ووٹ لینے کیلئے اقتصادی ترقی کے وعدے کرتے ہیں لیکن اقتدار میں آکر غریبوں کو بھول جاتے ہیں اور امیروں کے فائدے کے لئے کام کرتے ہیں اپنے ان اقدامات سے وہ دنیا کو معاشی طور پر کامیاب اور ناکام انسانوں میں تقسیم کر دینے کا سبب بنتے ہیں۔آکس فیم کی رپورٹ سے اختلاف کرنا ہمارا جمہوری حق ہے۔دنیا کے دوسرے ملکوں میں ایسا ہوتا ہوگا، مگرہمارے ہاں کے امیرزادے اتنے رحم دل، ہمدرد اورغریب دوست ہیں کہ وہ اپنی دولت میں سے کروڑوں روپے کبھی چھولے والے کے اکاؤنٹ میں جمع کرتے ہیں کبھی فالودے والے، کبھی تندور والے کو مالا مال کرتے ہیں اوراپنی شناخت بھی نہیں بتاتے۔حال ہی میں ایف آئی اے نے انکشاف کیا ہے کہ ہمارے ایک بڑے سیاسی خاندان کے متمول ترین کاروباری فرزند نے اپنے کارخانے ملازمین کے بینک اکاؤنٹ میں 9ارب 50کروڑ روپے جمع کرائے ہیں دفتر کے چپڑاسی کے بینک اکاؤنٹ میں دو ارب تیس کروڑ،جونیر کلرک کے اکاؤنٹ میں ایک ارب روپے، ایک سینئر کلرک کے اکاؤنٹ میں 24 کروڑ،اکاؤنٹ کلرک کے اکاؤنٹ میں 64 کروڑ،ایک کیش کلرک کے اکاؤنٹ میں 52 کروڑ، ایک پرچیزکلرک کے اکاؤنٹ میں ایک ارب بیس کروڑاور کیشئر کے اکاؤنٹ میں 45 کروڑ روپے جمع کردیئے اور ان ملازمین کے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں تھا۔ کچھ عرصہ قبل بے نامی اکاؤنٹس میں بھاری رقوم جمع کرائے جانے کا جب غلغلہ ہوا تو ہم بھی دن میں دو دو بار اپنا اکاؤنٹ چیک کرتے رہے کہ شاید کوئی بھولا بسرا امیرزادہ ہمارے اکاؤنٹمیں بھی دو چار کروڑ جمع کرادے اور ہمارے وارے نیارے ہوں مگر ہماری اتنی اچھی قسمت کہاں۔آج سے تیس چالیس سال پہلے ہمارے ملک میں 22کروڑ پتی خاندانوں کا بڑا چرچا تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے امیر ترین خاندانوں کی تعداد سینکڑوں، پھر ہزاروں اور اب لاکھوں تک پہنچ گئی۔ آج کروڑ پتیوں کو ٹٹ پونجیوں میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ امارت کا معیار کروڑوں سے نکل کر اربوں اور کھربوں تک پہنچ گیاہے۔ہمارے گاؤں میں ایک صاحب لکھ پتی کے نام سے مشہور ہیں ان کا اصل نام ان کے گھروالوں کے علاوہ بہت کم لوگ جانتے ہیں ان کی جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں ہوتی مگر کلین شیو، کپڑے استری، سیاہ چشمے اور بالوں میں تیل لگاکر اپنی بانس کی چھڑی ہاتھ میں گھماتا ہوا جب وہ گھر سے باہر نکلتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ قارون کا خزانہ اس کے ہاتھ لگ گیا ہے۔انہیں دیکھ کر ہی اردو کے محاورے فاقہ مست کا مفہوم سمجھ میں آگیا۔ آکس فیم کی رپورٹ میں شامل یہ نکتہ سو فیصد نہیں بلکہ پانچ سو فیصد درست لگتا ہے کہ سیاست دان کبھی اپنے وعدے پورے نہیں کرتے۔جو بھی حکومت بجٹ پیش کرتی ہے اس میں پٹرول، مٹی کے تیل، ڈیزل‘ گیس‘ بجلی‘آٹا‘ گھی‘ چینی‘ چاول‘ دال‘ چکن اور دیگر اشیائے ضروریہ پر ٹیکس لگاکر ان کے دام بڑھاتی ہے اور پھریہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ انہوں نے عوام دوست بجٹ پیش کیا ہے۔ہم حیران ہیں کہ اگر یہ دوستی ہے تو پھر دشمنی کیا ہے۔دشمنی والے کام کرکے دوستی کا دم بھرنے والوں کے حوالے سے ایک گمنام شاعر کا یہ مصرعہ یاد آتا ہے کہ ”دشمن اگر وہ دوست ہوا ہے تو کیا عجب۔ یاں اعتبار دوستی جسم و جاں نہیں“ امیر ترین لوگوں کے رویوں اور طرزعمل کی وجہ سے آلودگی میں اضافے کو روکنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ ملک میں انسداد پولیو‘ انسداد ڈینگی‘انسداد مچھر اور انسداد کورونا کی طرح انسداد امارت مہم شروع کی جائے۔امیروں کی ضرورت سے زیادہ دولت ان سے لے کر غریبوں میں تقسیم کی جائے تاکہ انہیں غربت کی لکیر سے باہر نکالا جاسکے۔کیونکہ یہ بات عام مشاہدے میں آئی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ماحول میں کشیدگی کی وجہ بھی یہی امیر ترین اور غریب ترین لوگ ہیں۔ان میں توازن پیدا ہوجائے تو قدرتی ماحول میں بھی توازن قائم کیا جاسکتا ہے۔ اسی میں ہم سب کی بقاء مضمر ہے۔لیکن مسئلہ پھر وہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟