پنجاب کے علاقے میلسی میں مقیم 86 سالہ دافیہ بائی عرف عائشہ کو کئی دہائیوں کے بعد پاک بھارت تقسیم میں بچھڑنے والے خاندان کے دیگر افراد مل گئے۔
74 سال قبل بچھڑنے والے دوبارہ ملاقات کے موقع پر آبدیدہ ہوگئے۔
رواں ماہ کی 13 تاریخ کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر میلسی میں چارپائی پر بیٹھے ہوئے 86 سالہ دافیہ بائی عرف عائشہ نے کسی کی مدد سے ایئر فون لگائے اور موبائل اسکرین پر توجہ دی۔
دافیہ بائی کی ایک آس میں آنکھیں پہلے ہی نم تھیں لیکن جیسے ہی پوتے اور بھتیجے کو واٹس ایپ ویڈیو کال پر دیکھا تو بے ساختہ جذبات میں اسکرین کو چومنا شروع کردیا اور آنکھوں سے آنسوؤوں کا سمندر رواں تھا۔
دافیہ بائی کیلئے تقسیم کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ جب انہوں نے اپنے گمشدہ کنبے کے لوگوں پر نگاہ ڈالی تھی۔
دافیہ کے خاندان کے دیگر افراد بھارت کے علاقے بیکانیر میں موجود ہیں جو تقریباً 266 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
موبائل کی اسکرین پر دافیہ بائی اپنے بھائی کے پوتے پوتیوں کو دیکھ کر جذبات قابو میں نہ رکھ سکیں اور 23 سالہ کالو رام اور 30 سالہ کھوجو رام سے مارواڑی میں کچھ الفاظ کہے جن کا مطلب کچھ یوں نکلتا ہے کہ میں نے اپنی تمام عمر رونے میں گزار دی ہے۔
دافیہ بائی کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی پوری زندگی گمشدہ خاندان کے لوگوں کو ڈھونڈنے کے لیے گھی، پیسے اور دیگر اشیاء کی پیشکش کرتی رہی ہوں۔
23 سالہ کالو رام کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ’دونوں خاندانوں کا یوں ملنا ایک بہترین عمل ہے، ہم نے اس سلسلے میں تصاویر اور ویڈیوز کا تبادلہ بھی کیا ہے۔‘
دافیہ کا کہنا ہے کہ انہیں اپنا گمشدہ خاندان تو مل گیا بس ایک اور خواہش ہے کہ حکومت ہمیں ویزہ جاری کرے تاکہ ہم جلد بھارت جا کر بھچڑنے والوں سے مل سکیں۔