اوسلو: ناروے میں نوجوانوں اور 12 سالہ بچوں پر کی گئی ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ قلم سے لکھنے یا ڈرائنگ بناتے دوران دماغ میں ایسی خاص سرگرمیاں پیدا ہوتی ہیں جو ذہانت، یادداشت اور سیکھنے کے بہترین عمل سے براہِ راست تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن کی بورڈ سے کام کرنے پر یہ سرگرمیاں مشاہدے میں نہیں آئیں۔
آسان الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر آپ اپنے ذہن کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو کی بورڈ سے زیادہ قلم سے لکھنے کی مشق پر توجہ دیجیے۔
یہ مطالعہ نارویجین یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں اعصابیات (نیورولوجی) کی پروفیسر آڈری وان ڈر میر کی سربراہی میں کیا گیا ہے، جو گزشتہ کئی سال سے اسی موضوع پر تحقیق کررہی ہیں۔
قبل ازیں 2017 میں بھی انہوں نے یونیورسٹی کے 20 طالب علموں میں کی بورڈ اور قلم استعمال کرتے ہوئے لکھنے کی عادت اور سیکھنے کی صلاحیت کے مابین تعلق پر تحقیق کی تھی؛ اور یہی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ جب ہم لکھنے کےلیے قلم کا استعمال کرتے ہیں تو ہماری اکتسابی صلاحیتیں واضح طور پر بہتر ہوتی ہیں۔
تازہ مطالعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں 12 نوجوانوں کے علاوہ 12 سال کی عمر والے 12 بچے بھی بطور رضاکار شریک کیے گئے۔
دماغ میں پیدا ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی غرض سے انہیں خاص طرح کی نرم برقی ٹوپی پہنائی گئی جس میں 256 حساسیے (سینسرز) نصب تھے۔ ہر رضاکار کو 45 منٹ کی آزمائش سے گزارا گیا جس میں برقی قلم سے ٹچ اسکرین پر لکھنا، ڈرائنگ بنانا اور کمپیوٹر کی بورڈ سے ٹائپ کرنے کی مشقیں شامل تھیں۔
آزمائش کے دوران اس مخصوص ٹوپی کے ذریعے ہر رضاکار کے مختلف دماغی حصوں میں پیدا ہونے والی اعصابی سرگرمی انتہائی باریک بینی کے ساتھ، مسلسل ریکارڈ کی جاتی رہی۔
اگلے مرحلے میں جب ان رضاکاروں میں دماغی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ قلم سے لکھتے یا ڈرائنگ بناتے وقت ان کی دماغی لہریں ایک خاص انداز (پیٹرن) میں بن رہی تھیں۔ یہ خاص انداز بالکل ویسا ہی تھا کہ جب ہمارا دماغ سیکھنے (اکتساب) کی بہترین کیفیت میں ہوتا ہے۔
البتہ کی بورڈ استعمال کرکے ٹائپنگ کرتے دوران دماغی لہروں میں یہ پیٹرن دکھائی نہیں دیا۔
اس مطالعے سے یہ بات ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوگئی کہ بچے ہوں یا بڑے، سب میں قلم کے استعمال سے اکتسابی صلاحیتیں بہتر ہوتی ہیں۔
’’میں تعلیم کے میدان میں جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مخالف نہیں،‘‘ آڈری وان ڈر میر نے کہا، ’’لیکن یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ اگر ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں میں سیکھنے کی صلاحیت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں روایتی انداز میں قلم کا استعمال بھی جاری رکھنا چاہیے۔‘‘
یہ تحقیق آن لائن ریسرچ جرنل ’’فرنٹیئرز اِن سائیکالوجی‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔