خیبرپختونخوا صوبائی ترقیاتی ورکنگ پارٹی نے ضم اضلاع سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں بڑے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی ہے اجلاس میںمجموعی طور پر 50ارب 18کروڑ روپے کے منصوبے منظور کئے گئے،دینی مدارس کے طلبا کی صلاحیت بڑھانے کےلئے 15کروڑ ،ملاکنڈ ڈویلپمنٹ پروگرام کے لئے پانچ ارب نوے کروڑ، شمالی وزیرستان کےلئے 2 ارب روپے کا ترقیاتی پیکج منظور کیا گیا،جس میں سے 78کروڑ کی لاگت سے 42کلومیٹر تنائی گل کچ روڈ کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ جنوبی وزیرستان میں کنڈیوان وئیر چھوٹے ڈیم کا منصوبہ ایک ارب 23کروڑ ارب روپے کی لاگت سے تعمیر کیاجائے گا۔نوجوانوں کے نئے کاروباری آئیڈیاز پروگرام کیلئے 1ارب جبکہ 100 پرائمری سکول کی تعمیر کےلئے دو ارب تین کروڑ روپے کی منظوری دی گئی صوبہ بھر میں ایک سو ہائی سکولوں کو ہائیر سیکنڈری سکولوں کا درجہ دیا جائے گا جس کے لئے تین ارب ساٹھ کروڑ روپے مختص کردیئے گئے۔ یہ تمام منصوبے صوبائی بجٹ میں منظور کئے گئے تھے جن کے لئے صوبائی ترقیاتی ورکنگ پارٹی نے فنڈز جاری کرنے کی منظوری دی ہے یہ امر خوش آئند ہے کہ صوبے میں ضم ہونے والی سابق قبائلی ایجنسیوں کو صوبائی ترقیاتی پروگرام میں حصہ دیا جارہا ہے تاہم قبائلی عوام کا معیار زندگی صوبے اور ملک کے دیگر شہروں میں بسنے والوں کے برابر لانے کے لئے کہیں زیادہ وسائل درکار ہیں۔حکومت نے ضم اضلاع کو ترقی کے قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے خصوصی پیکج کا اعلان کیا تھا فاٹا کے انضمام کے وقت تمام صوبوں سے مشاورت بھی کی گئی تھی اور یہ طے پایا تھا کہ وفاق اور چاروں صوبے قومی مالیاتی کمیشن میں اپنے حصے کا تین فیصد ضم اضلاع کی تعمیر و ترقی کے لئے مختص کریں گے۔گزشتہ مالی سال کے دوران وفاق اور خیبر پختونخوا نے اپنے حصے کا تین فیصد ضم اضلاع کو دیدیا تاہم سندھ، پنجاب اور بلوچستان نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے قبائلی علاقوں کی تیز تر ترقی کا پروگرام متاثر ہورہا ہے۔ وہاں شرح خواندگی بھی 25فیصد کے لگ بھگ ہے 20فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت ہے تاہم بیشتر علاقے بارانی ہیں 80فیصد قبائلی کاروباراور محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں‘ اب جبکہ قبائلیوں کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قبائلی علاقوں میں انفراسٹرکچر کی تعمیر، تعلیم اور صحت کی سہولیات اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کیلئے خاطر خواہ وسائل فراہم کئے جائیں ۔حکومت نے دس سالوں میں سو ارب روپے قبائلی علاقوں پر خرچ کرنے کااعلان کیا تھا۔اس تناسب سے فاٹا کو ترقیاتی منصوبوں کےلئے سالانہ کم از کم دس ارب روپے فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ترقی کی رفتار کو تیز کیا جاسکے۔لوگوں کو بنیادی شہری سہولیات فراہم کی جاسکیں تاکہ انہیں چھوٹی موٹی ضروریات پوری کرنے کےلئے شہری علاقوں کا رخ نہ کرنا پڑے۔وہاں سڑکوں، سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر حکومت کی ترجیحات ہونی چاہیںتاکہ بنیادی انسانی سہولیات کے ساتھ لوگوں کو اپنے گھروں کے قریب محنت مزدوری کے مواقع میسر آئیں ۔ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب ہوکر قومی ایوانوں میں پہنچنے والے قبائلی عوام کے نمائندوں پر اس حوالے سے بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ضم اضلاع میں احتساب کا عمل بھی شروع کرنا ضروری ہے گزشتہ ستر سالوں میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کےلئے اربوں کھربوں روپے کے فنڈزجاری ہوئے ہیں جو عوام پر خرچ نہیں ہوسکے یہ رقم کہاں گئی اور قبائلی عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے کون تھے ان کو منظر عام پر لانا بھی ضروری ہے تاکہ ان سے لوٹی ہوئی رقم واپس لے کر قبائلی عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی پر خرچ کی جاسکے۔