بحران سے مہنگائی تک

گندم کی کمی کے باعث پیدا ہونے والے بحران کے باعث آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ مالی سال کے دوران غلط منصوبہ بندی اور بروقت فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے گندم کا بحران پیدا ہوا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ فیصلہ سازوں نے گندم برآمد کرنے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے غلط اندازے پیش کئے اور پاکستان میں گندم کے ذخیرے کو ضرورت سے زیادہ قرار دیا جبکہ صورتحال اِس کے برعکس تھی اور چند ہی ہفتوں بعد ثابت ہوا کہ نہ صرف گندم کا ذخیرہ کم ہے بلکہ اِس کی پیداواری ہدف بھی حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ اِن حقائق کے سامنے آنے کے بعد حکومت نے اکتوبر 2019ءمیں گندم کی برآمد پر دوبارہ پابندی عائد کردی لیکن اُس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی! یوں بحران سے مہنگائی تک کے سفر میں فیصلہ سازوں کو کچھ نہیں بگڑا لیکن ایک عام صارف کو غلط فیصلوں کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے! تعجب خیز ہے کہ حکومت نے گندم کی بطور جنس برآمد پر تو پابندی عائد کی لیکن اِس نے گندم سے بننے والی مصنوعات پر پابندی عائد نہیں کی۔ اس طرح میدا‘ سوجی اور دیگر مصنوعات کی آڑ میں بھی گندم برآمد ہوتی رہی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ گندم برآمد کرتے وقت بھی ذخائر اِس قدر زیادہ نہ تھے جو آنے والے ہفتوں اور مہینوں کی ضرورت کو پورا کرتے اور نجانے فیصلہ ساز کس بنیاد پر گندم کی پیداوار کا اندازہ لگا لیتے جبکہ یہ ابھی کاشت بھی نہیں ہوتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے زراعت پر اثرات و دباو¿ کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ بہرحال دسمبر 2019ءسے گندم اور آٹے کی قیمتوں میں اِضافہ ہونا شروع ہوا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے!مالی سال 2019-20ءکے لئے‘ وفاقی وزارت برائے تحفظ خوراک و تحقیق نے اندازہ لگایا تھا کہ گندم کی پیداوار ”ستائیس ملین ٹن“ سے زیادہ ہوگی لیکن مئی اور جون میں ہوئی بارشوں نے گندم کی فصل (پیداوار) کو متاثر کیا کیونکہ یہ بارشیں ایک ایسے وقت میں (اچانک) ہوئیں جبکہ کئی میدانی علاقوں میں گندم کی کٹائی کا عمل جاری تھی۔ اندازہ ہے کہ غیرمعمولی اوقات میں ہوئی بارشوں کے سبب ’ایک سے ڈیڑھ لاکھ ٹن‘ گندم کا نقصان ہوا۔ اس طرح پاکستان اپنی تخمینہ شدہ گندم کے ہدف (ستائیس ملین ٹن) کو پورا نہیں کرسکا۔ مرکز اور صوبوں نے گزشتہ فصل کے موقع پر 8.25ملین ٹن گندم خریداری کا ہدف مقرر کیا جبکہ صوبوں نے اپنی ضروریات اور گندم کی قلت و بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے خریداری کا فیصلہ کیا لیکن پھر بھی مطلوبہ مقدار میں گندم ذخیرہ نہیں کی جا سکی۔ اس حقیقت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ گندم کی پیداوار چوبیس اعشاریہ چار سے چھبیس اعشاریہ چھ کے قریب ہوتی ہے اور اِس سلسلے میں متعلقہ وزارت کے دعووںاور اصل پیداوار میں فرق ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں طلب و رسد کے فرق کی وجہ سے گزشتہ چند مہینوں سے گندم کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ حکومت کا ابتدائی اندازہ تھا کہ ملک میں گندم کی قلت دس لاکھ ٹن ہے جو بڑھ کر پندرہ لاکھ ٹن سے تجاوز کر گئی۔ ہر سال دو سے ڈھائی لاکھ ٹن گندم کم ہو جاتی ہے اور یہ معمول ہے لیکن ہمارے فیصلہ ساز ہر سال گندم کی قلت کا گویا انتظار کرتے ہیں! سردست حکومت نے سرکاری شعبے کے توسط سے گندم کی درآمد کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ جب تک نجی ادارے گندم کی درآمد میں دلچسپی نہیں لیں گے ملک گیر گندم و آٹے کی فراہمی سے متعلق صورتحال میں بہتری نہیں آئے گی۔ پالیسی سازوں کے لئے‘ اٹھارہویں آئینی ترامیم کے نتیجے میں چند عملی مشکلات درپیش ہیں کیونکہ اِس وقت ملک میں ایک نہیں بلکہ پانچ حکومتیں ہیں اور مرکز جو بھی فیصلہ کرتا ہے اُسے صوبوں کی جانب سے اتفاق رائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لائق توجہ دوسرا امر وفاق کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی ہے‘ کیونکہ درآمد کی جانے والی گندم کا نرخ اور اِس کی قیمت فروخت میں فرق وفاق کو ادا کرتا ہے لیکن یہ مراحل بھی خاطرخواہ خوش اسلوبی سے طے نہیں ہوئے۔ ایک مرحلے پر اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پاسکو اور ٹی سی پی کی جانب سے 274 ڈالر فی ٹن کے حساب سے گندم درآمد کرنے کی اجازت طلب کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا اور اجازت نہیں دی لیکن چند ہی دنوں بعد 279 ڈالر فی ٹن کے حساب سے روسی گندم درآمد کرنے کی اجازت دینا پڑی کیونکہ ملک میں گندم و آٹے کی کمی سے پیدا ہونے والے بحران میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے اور حکومت حزب اختلاف کی جانب سے بار بار کئے جانے والے اِس اعتراض کا بھی حل چاہتی ہے کہ تحریک انصاف کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ اور گندم و آٹے کا بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ حکومت اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ تھی کہ اگر قلت برقرار رہی تو گندم کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے لیکن اُس نے غیرضروری طور پر بچت کرنے کی کوشش کی اور اِس کوشش میں زیادہ مہنگی گندم خریدنا پڑ گئی۔