جمہوریت اور اخلاقی قوت

اپریل 2016کے دوسرے ہفتے کی بات ہے، ملائشیاءمیں اپنے لکھے ہوئے ٹی وی ڈرامے کی شوٹنگ سے واپس سویڈن پہنچا تھا، اگلی ہی صبح میری سویڈش لینگوئج کی کلاس تھی، کلاس کے ختم ہوتے ہی باہر نکلا تو پولیٹیکل سائنس پڑھانے والی ٹیچر سے ملاقات ہوئی، اس کے ہاتھ میں اخبار تھا جس کے پہلے صفحے پر پانامہ لیکس کا ٹائٹل بنا ہوا تھا۔سلام دعا کرنے کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ آپ پانامہ لیکس کو اتنی غور سے کیوں پڑھ رہی ہیں ؟ کیا کوئی سویڈن کا کوئی سیاستدان بھی لسٹ میں موجود ہے؟۔ انہوں نے جواب دیا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن پاکستان کا وزیراعظم اور اس کا خاندان پانامہ لیکس میں کرپشن کی لسٹ میں موجود ہے۔ وہ بے چاری حیران تھی کہ کیوں کسی ملک کے لوگ مالی بدعنوانی اور کرپشن میں ملوث سیاستدانوں کو ووٹ دے کر اپنے اوپر مسلط کر لیتے ہیں؟، گفتگو کے دوران انہوں نے کسی ملک کے سربراہ کے کرپٹ ہونے کہ وجہ سے اس ملک کی اخلاقی، سیاسی اور معاشی بدحالی کے یقینی ہونے کے لیے کئی تاویلیں اور دلائل پیش کیں اور ساتھ ہی کہا کہ بڑے افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ عوام ایسے لوگوں کو اپنے حکمران چنتے ہیں۔ایک حقیقت تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اور تیسری دنیا کے ممالک کے درمیان فیصلہ کُن فرق کرپشن کا ہی ہے، تیسری دنیا فقط اسی لیے تیسری دنیا ہے کہ وہاں نہ صرف کرپشن ہوتی ہے بلکہ کرپشن کو جائز سمجھ کر کیا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک میں چیک اینڈ بیلنس کا اس قدر مربوط نظام رائج ہوتا ہے کہ کرپشن کرنا نہ صرف مشکل ہوتا ہے بلکہ اس عمل کو انتہائی بے ہودہ تصور کیا جاتا ہے۔دنیا میں رائج ہر طرح کا حکومتی نظام بالعموم اور جمہوری نظام بالخصوص کسی بھی ملک کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے اخلاقی طرزِ عمل پر منحصر ہوتی ہیں، جتنی مضبوط اخلاقی قوت، اتنا ہی شفاف نظام حکومت ۔ اسی تناظر میں ایک واقعے کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔ سویڈن کا شمار دنیا کے چند گنے چنے بہترین جمہوری ممالک میں ہوتا ہے ، کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ یہاں انتخابات ہو رہے تھے، انتخابات میں حصہ لینے و الے امیدوار کاغذاتِ نامزدگی جمع کرا رہے تھے۔ اس دوران ایک خاتون اُمیدوار کے کاغذات کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد جب اس کو بلایا گیا تو اس کے سامنے اس کی بے ضابطگیاں رکھی گئیں۔ پہلی بے ضابطگی کے مطابق اس نے جلدی بازی میں اپنی گاڑی مخصوص افراد کےلئے مختص کردہ پارکنگ میں پارک کرائی تھی جس پر اُسے جرمانہ کیا گیا تھا، جرمانہ اُس نے اپنے ذاتی اکاﺅنٹ کی بجائے اپنے ادارے کے اکاﺅنٹ سے جمع کرایا اور بعد میں اپنے اکاﺅنٹ سے پیسے اپنے ادارے کی اکاﺅنٹ میںواپس جمع کرادئیے جس کےلئے اُس نے کہا اُس کے پاس اپنے پیسے نہیں تھے ،لہٰذا اُس نے ادارے کا اکاﺅنٹ استعال کیا اور بعد میں پیسے واپس جمع کرادئیے جس کے ثبوت بھی موجود تھے، مذکورہ خاتون اُمیدوار کے اس عُذر کو مان لیا گیا اور مذکورہ بے ضابطگی سے اس کو آزاد کردیا گیا، لیکن غلط پارکنگ کے معاملے پر اس کو انتخابات میں حصہ لینے کےلئے ناہل قرار دے دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ ناقابلِ معافی ہے کہ کوئی غلطی سے بھی معاشرے کے خصوصی افراد کی حق تلفی کرے، خصوصی افراد کو خصوصی درجہ اسی لیے دیا گیا ہے کہ انہیں بہت خاص طور پر دیکھا جائے، ان کے خاص حقوق ہیں۔اب انداز ہ لگایئے کہ جب کسی ملک میں غلط پارکنگ کرنے پر کسی اُمیدوار کو انتخابات میں حصہ لینے کے نا اہل قرار دیا جاتا ہو تو وہاں کے نظام میںمالی بدعنوانی کو کس قدر کراہت کی نظر سے دیکھا جاتا ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ یہاں جمہوریت اس کی اصل شکل و صورت میں کامیابی کے ساتھ چلتی نظر آرہی ہے، اور حکمرانوں کو دوران اقتدار فقط تنخواہ پر زندگی بسر کرنا پڑتی ہے۔دوسری طرف ہمارا ملکِ خداداد جہاں جمہوریت ظاہری اوباطنی طور پر فقط دکھاوے کے نظام کے طور پر ہی رہتی چلی آئی ہے، جہاں چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے سیاسی نظریات کے ساتھ اختلافات کرتے ہوئے کئی دہائیوں تک ایک دوسرے کے خلاف انتخابات لڑتی رہی ہیں، اس دورا ن پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر کرپشن کے بڑے بڑے مقدمات بھی قائم کیے لیکن کبھی ایک دوسرے کے خلاف قانونی جارہ جوئی نہیں ہونے دی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں ایک عجیب روش چل پڑی ہے کہ اگر ان پر لگے کرپشن کے الزامات کا ان سے جواب طلب کیا جائے تو اپنے اثاثے ثابت کرنے کی بجائے ان کی خودساختہ جمہوریت خطرے سے دوچار ہونا شروع ہوجاتی ہے۔