سیاست میںبھی صنفی امتیاز

 الیکشن کمیشن نے انتخابی فہرستوں پر نظرثانی کے بعد حتمی انتخابی فہرستوں کے اعداد و شمار جاری کردئیے ہیں۔فہرست کے مطابق 2018 کے عام انتخابات کے بعد ووٹرز کی تعداد 98 لاکھ بڑھ گئی ہے گذشتہ عام انتخابات میں ووٹرز کی مجموعی تعداد دس کروڑ، انسٹھ لاکھ پچپن ہزار چار سو نو تھی۔اب یہ تعداد بڑھ کرگیارہ کروڑ ستاون لاکھ اڑتالیس ہزارسات سو تریپن ہوگئی ہے اور 2023کے عام انتخابات تک رائے دہندگان کی تعداد تیرہ کروڑ تک پہنچ جائے گی۔الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق پنجاب کے کل رائے دہندگان کی تعداد چھ کروڑ باسٹھ لاکھ چھتیس ہزار ایک سو چوالیس ہے سندھ کے رائے دہندگان کی تعداددو کروڑ تریالیس لاکھ، اکیاون ہزار چھ سو اکیاسی،بلوچستان کے ووٹرز کی تعداد اڑتالیس لاکھ ایک ہزار ایک سو اکتیس اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ووٹرز کی تعداد آٹھ لاکھ پچیس ہزار آٹھ سو تینتیس ہے۔خیبر پختونخوا میںمرد رائے دہندگان کی تعدادایک کروڑ دس لاکھ چھہتر ہزار چھ سو تیس اور خواتین ووٹرز کی تعداد چوراسی لاکھ ستاون ہزار دو سو ایک ہے خواجہ سرارائے دہندگان کی تعداد133ہے ، اس طرح خیبر پختونخوا کے کل رائے دہندگان کی تعداد ایک کروڑ پچانوے لاکھ تینتیس ہزار نو سو چونسٹھ بنتی ہے۔ مجموعی طور پرپاکستان میں مرد رائے دہندگان کی تعداد چھ کروڑ چالیس لاکھ اٹھہتر ہزار چھ سو سولہ اور خواتین رائے دہندگان کی تعداد پانچ کروڑ سولہ لاکھ ستاسٹھ ہزار پانچ سو ننانوے ہے۔جبکہ دو ہزار پانچ سو اڑتیس خواجہ سرا بھی ووٹرز میں شامل ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی مجموعی آبادی میں مرد اور خواتین کا تناسب تقریباً پچاس پچاس فیصد ہے ۔جبکہ ووٹرز کی تعداد کے لحاظ سے مردوں کی تعداد ساٹھ فیصد اور خواتین کی چالیس فیصد بنتی ہے۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ماﺅوں، بہنوں اور بیٹیوں کو ہمارے ہاں نہ صرف وراثت اور جائیدادوں سے ہی محروم نہیں رکھا جاتا انہیں اظہار رائے کی آزادی اور رائے دہی کا حق بھی نہیں دیا جاتا۔اندرون سندھ، پنجاب کے دیہی علاقوں، بلوچستان کے اکثر اور خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کےلئے پولنگ سٹیشن جانے کی اجازت نہیں دی جاتی اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں باہمی مشاورت سے ان مخصوص علاقوں میں خواتین سے ووٹ کا حق چھین لیتی ہیں ۔پاکستان میں مرد اور خواتین کی تعداد میں چند لاکھ کا فرق ہے جبکہ مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد میں ایک کروڑ چوبیس لاکھ کا واضح فرق موجود ہے۔ ہمارے ہاںقومی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کی جنرل نشستوں پر خواتین کی نامزدگی کا رسک سیاسی پارٹیاں نہیں لیتیں، عام انتخابات کے بعد ان کے لئے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں میںکچھ نشستیں مختص کی جاتی ہیں۔اس ملک میں ایک خاتون ملک کی وزیراعظم رہی ہیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی نشستوں پر بھی خواتین رہی ہیں کچھ خواتین وزارتوں میں بھی رہی ہیں لیکن کسی نے خواتین کے ساتھ اس سنگین صنفی امتیاز کے خلاف آواز اٹھائی اور نہ ہی اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت محسوس کی۔ قومی ایوانوں کی طرح سرکاری اداروں میں بھی خواتین کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے آبادی کے تناسب سے کسی بھی ادارے میں خواتین کو نمائندگی نہیں ملتی، حقوق نسواں کی علم برداراورصنفی امتیاز سے پاک منشور رکھنے کی دعویدار پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو بھی جب اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ انہوں نے صنفی امتیاز کی پالیسی کو جاری رکھا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیے ہیں دونوں پہیوں میں توازن ہو تو گھر، محلے،شہراورریاست کا نظام ہموار طریقے سے چل سکتا ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ اور ترقی پذیر ملک میں نصف آباد ی کو فاضل پرزہ قرار دے کر قومی ترقی کے لئے متعین اہداف حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ صلاحیتوں کے اعتبار سے مرد اور خواتین میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ بعض شعبوں میں خواتین صلاحیتوں کے حوالے سے مردوں سے بہتر ثابت ہوئی ہیں اس لئے قومی تعمیر کے کاموں میں انہیںمساوی حیثیت دینا ضروری ہے تاکہ معاشرہ تیزی سے ترقی کرسکے۔حقوق نسواں کے لئے کام کرنے والے سرکاری اداروں، ملکی اور بین الاقوامی این جی اوزاور قومی ایوانوں میں موجود خواتین کو تعلیم، سرکاری ملازمتوں اور رائے دہی میں خواتین کو مساوی حقوق دینے کے لئے موثر آواز اٹھانی چاہئے۔