ثقافتی گوشہ خانہ

بھارت کی فلمی صنعت (بالی ووڈ) کے سپرسٹار یوسف خان اَلعمروف دلیپ کمار ’گیارہ دسمبر اُنیس سو بائیس‘ پشاور میں پیدا ہوئے۔ ’اُنیس سو چالیس‘ میں والدین کے ہمراہ پونے (صوبہ مہاڑاشٹرا) منتقل ہوئے جو قیام پاکستان کے بعد بھارت کا حصہ ہے اور یوں پشاور کی زرخیز مٹی سے اُُٹھنے والا اِس سپوت کی شخصیت اور شناخت بھی 2 ممالک میں تقسیم ہو گئی! دلیپ کمار پشاور کو نہیں بھول سکے اور نہ ہی پشاور اپنے اُس ’یوسف خان‘ کو فراموش کر پایا ہے‘ جنہوں نے اداکاری کی عظیم درسگاہ ’قصہ خوانی بازار‘ اور اِس سے ملحقہ گلی کوچوں میں کھیل کود کر کو جو کچھ بھی سیکھا‘ اُس کا عملی مظاہرہ جہاں اِن کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھا‘ وہیں پشاور کا تعارف بھی ثابت ہوا اور ایک دائمی حوالہ ہے۔ اُردو ہندی فلموں کے سنہرے دور کی آخری یادگار ’دلیپ کمار‘ عرصہ¿ دراز سے علیل ہیں‘ جبکہ کورونا وبا کی وجہ سے بھی اُنہوں نے اپنی سماجی مصروفیات ترک کر رکھی ہیں لیکن جب کبھی بھی پشاور اور پشاور میں اُن کی ’آبائی گھر‘ سے متعلق کوئی خبر ملتی ہے تو دلیپ کمار خود کو رابطوں سے روک نہیں سکتے۔پشاور کی نئی نسل اَداکاری کے اِس بے تاج بادشاہ جنہیں ’شہنشاہ¿ جذبات‘ بھی کہا جاتا ہے سے زیادہ آشنا نہیں ہوں گے۔ اِن کی فلمی دنیا کا سفر فلم ’جوار بھٹہ‘ 1944ءسے شروع ہو کر 1990ءمیں بننے والی فلم ’آگ کا دریا (1990ئ)‘ تک پھیلا ہوا ہے‘ جس میں درجنوں شاہکار فلمیں شامل ہیں۔ مردانہ وجاہت رکھنے والے دلیپ کمار صرف فلمی ہی نہیں بلکہ اپنی ذہانت اور سماجی خدمات کے بل بوتے پر بھارتی سیاست کے اُفق پر بھی جگمگاتے رہے۔ آپ 2000ءسے 2006ءتک اِیوان بالا (راجیہ سبھا) کے رکن رہے جبکہ سال 2011ءمیں اپنی 89ویں سالگرہ کے موقع پر اُنہوں نے سوشل میڈیا ٹوئیٹر اکاو¿نٹ (@TheDilipKumar) کے ذریعے اپنے مداحوں اور پرستاروں سے رابطے کی نئی راہ تلاش کی۔ مذکورہ ٹوئٹر اکاو¿نٹ سے دلیپ کمار نے ’انوکھی خواہش‘ کا اظہار کیا کہ اُنہیں پشاور کے اپنے آبائی گھر کی تصاویر ارسال کی جائیں۔ بس اِس کے بعد کیا تھا کہ ہر طرف سے ہیش ٹیگ (#DilipKumar) پر تصاویر کی موسلادھار بارش ہونا شروع ہوئی اور ایک ’تانتا‘ بندھ گیا‘ جنہیں دیکھ کر یقینا بھارت کے لئے ’دلیپ کمار‘ اور پاکستان کے لئے ’یوسف خان‘ کو اطمینان ہوا ہو گا کہ اُنہیں فراموش نہیں کیا گیا اور وہ آج بھی پشاور کی فضاو¿ں میں زندہ اور اُسی طرح موجود ہیں‘ جیسا وہ قریب 80 برس قبل چھوڑ کر گئے تھے۔ آٹھ دہائیوں کی اِس جدائی میں دلیپ کمار بھلے ہی اپنی ذات میں مگن رہے ہوں لیکن پشاور کہیں نہ کہیں اُن کے خمیر‘ اُن کی ذات و شخصیت کا حصہ تھا اور آج بھی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے۔ ناقابل یقین ہے کہ قصہ خوانی بازار سے متصل کوچے میں دلیپ کمار کا آبائی گھر معلوم ہونے کے باوجود بھی متعلقہ حکومتی محکموں کی نظروں سے اُوجھل رہا اور یہی وجہ ہے کہ وقت 8 دہائیاں بنا دیکھ بھال گزرنے کی وجہ سے یہ گھر صرف ڈھانچے کی صورت ہی باقی ہے اور اِس کے باہری درودیوار ہی زیادہ اچھی (مثالی) حالت میں نہیں۔ جابجا دیواروں کے پلستر اُکھڑے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گنجان آباد علاقے کے وسط میں کھڑا یہ لاوارث مکان کسی بھوت بنگلے کا منظر پیش کر رہا ہے‘ حالانکہ یہ ایک اثاثہ ہے لیکن پشاور کے ایسے کئی اثاثوں کی خاطرخواہ قدر نہیں کی گئی۔ دلیپ کمار کی جنم بھومی کو آخری مرتبہ رنگ و روغن کب دیا گیا تھا‘ معلوم نہیں لیکن کہیں نہ کہیں رنگ برنگے رنگوں کے دھبوں سے عیاں ہے کہ یہ بلند و بالا عمارت کبھی نہایت ہی دلکش و حسین اور پشاور کی چند خوبصورت ترین عمارتوں میں سے ایک ہو گی۔ آج لکڑی کے تختوں سے بنی افقی کھڑکیاں خستہ حال ہیں۔ فن تعمیر کے یہ نادر شاہکار کم و بیش ہی دیکھنے کو ملتے ہیں جنہیں مقامی ہندکو زبان میں ’اَڑوسی یا عروسی‘ کہا جاتا ہے۔ اَڑوسی کی وجہ تسمیہ ’اَڑوس پڑوس‘ سے حال اَحوال اور ممکنہ طور پر دید کی سبیل ہو سکتا ہے بہرحال اِن اڑوسیوں کو بھی باآسانی بحال کیا جا سکتا ہے۔ چھتوں کے جو حصے موسمی اثرات یا قبضہ کرنے کے لئے منہدم کئے گئے اُن کی اصل حالت میں بحال بھی ممکن ہے کیونکہ تاحال نہ تو یہ لکڑی کے استعمال پر مبنی ’فن تعمیر‘ متروک ہوا ہے اور نہ ہی اِس کے لئے درکار سازوسامان ناپید ہے۔ چھت کے ملبے کا بڑا حصہ‘ مٹی پر مشتمل تھا جو مکان کے صحن ہی میں گرا ہے جبکہ لکڑی کے ’شاہ تیر‘ غائب ہیں جنہیں پھر سے تراشا جا سکتا ہے جبکہ وہ مکان جو کبھی اِس مکان کی محافظ اور زندگی کی علامت تھی‘ اُسے بھی تبدیل کرکے مکان کو مختلف مقصد کےلئے استفادے کے قابل بنانا ممکن ہے۔ اِس سلسلے میں خیبر پختونخوا حکومت کا یہ فیصلہ درست ہے کہ بھارتی فلمی صنعت کے 2 ستاروں (دلیپ کمار اور راج کپور) کی آبائی رہائشگاہوں کو ’عجائب گھروں‘ میں تبدیل کر دیا جائے۔ اِس اعلان کے منظرعام پر آنے کے بعد دلیپ کمار کی جانب سے اپنے آبائی گھر کی تصاویر دیکھنے کی خواہش کا اِظہار ہوا‘ تو اِس کی فوری تعمیل ہوئی اور دلیپ کمار نے اہل پشاور کا تمام تر محبتوں اور غیرمشروط تعاون کے لئے شکریہ اَدا کیا ہے۔ دلیپ کمار سمیت فلم اور دیگر شعبہ¿ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے اُس وقت پشاور کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا‘ جب وہ اِس شہر کی ترقی اور یہاں کسی یادگار (صدقہ¿ جاریہ) کی تعمیر کر سکتے ہیں لیکن پشاور نے کبھی بھی اِن رویوں کی شکایت نہیں کی بہرحال یہ الگ موضوع ہے جس کا کسی دوسرے مرحلہ¿ فکر پر احاطہ کیا جائے گا کہ پشاور کا حق کیا تھا اور کیا ہے!؟خیبرپختونخوا حکومت سیاحت کے فروغ کے لئے ہر ممکنہ کوششوں میں اُن سبھی وسائل کی ترقی اور استفادہ چاہتی ہے‘ جو ملکی و غیرملکی سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہو سکتے ہیں ۔ اب اگر دلیپ کمار اور راج کپور کے گھروں کو خرید کر انہیں بحال اور عجائب گھروں میں ڈھال دیا جاتا ہے تو تاریخی ’قصہ خوانی بازار‘ کی سیاحتی حیثیت میں چار چاند لگ جائیں گے اور پشاور پاکستان کا ایسا واحد شہر ہوگا جہاں 4 عجائب گھر اِس شہر کی تاریخ و ثقافت کا منہ بولتا ثبوت ہوں گے۔ اِن میں عجائب گھروں میں گندھارا‘ سٹی میوزیم شامل ہیں جبکہ دلیپ کمار اور راج کپور کے گھر جو ’ثقافتی گوشہ خانے‘ ہوںگے اور اِنہیں اگر عجائب گھر کی بجائے ’ثقافتی گوشہ خانہ‘ ہی کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔