سی پیک میں میگاپراجیکٹس کی شمولیت

چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں خیبر پختونخوا کے گیارہ بڑے منصوبوں کو شامل کرنے کا فیصلہ کرلیاگیا۔ یہ منصوبے سی پیک کے دسویں جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی کے اجلا س میں غور کےلئے پیش کئے جائیں گے۔سی پیک میں شامل ہونے والے مجوزہ منصوبوں میں توانائی ، روڈ انفراسٹرکچر ، زراعت، صنعت ، سیاحت اور سماجی شعبوں کے منصوبے شامل ہیں ۔وزیراعلیٰ محمود خان کی زیر صدارت مشاورتی اجلاس میں سی پیک میں شمولیت کےلئے جن منصوبوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں پشاور ڈیرہ اسماعیل خان موٹروے، سوات ایکسپریس وے فیز ٹو، دیر ایکسپریس وے ، چکدرہ چترال ایکسپریس وے ، چترال شندور روڈ، چشمہ رائٹ بینک کینال، کمراٹ مداکلشٹ کیبل کار، پشاور سرکلر ریل پراجیکٹ، درابن اکنامک زون ، چترال کاموری کاری ہائیڈل پاور پراجیکٹ اور چترال تا چکدرہ 500 کے وی ٹرانسمیشن لائن شامل ہیں وزیراعلیٰ نے اجلاس کو بتایا کہ سی پیک کے تحت بننے والے رشکئی اکنامک زون کا افتتاح وزیراعظم عنقریب کریں گے اکنامک زون میں صنعتیں لگانے کیلئے اب تک 700 درخواستیں موصول ہو چکی ہیں ۔ان صنعتوں کو خیبر پختونخوا حکومت چھوٹے پن بجلی گھر منصوبوں سے حاصل ہونے والی بجلی رعایتی نرخوں پر فراہم کرے گی۔ جس سے صنعتی ترقی کے ساتھ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ صوبے میں زراعت کی ترقی کیلئے بھی اہم منصوبے جے سی سی کے دسویں اجلاس میں منظوری کیلئے پیش کئے جائیں گے تاکہ اس صوبے کو زرعی پیداوار میں خود کفیل بنایا جا سکے ۔ خیبر پختونخواکی تین چوتھائی آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ان علاقوں میں تجارتی پیمانے پر زرعی اجناس، پھل اور سبزیاں پیدا کرنے کی گنجائش ہے مگر یہ زرعی پیداوارسڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے منڈیوں تک نہیں پہنچ پاتی۔چترال کے سیب، خوبانی، بے دانہ توت، ناشپاتی، انگور،مٹر اور آلو کی فصلیں اپنے بہترین معیار کی وجہ سے مشہور ہیں مگر دیہی علاقوں میں ان کی پیکنگ، سٹوریج اور منڈی تک پہنچانے کے لئے سڑکوں کی سہولت میسر نہیں ، حال ہی میں چترال کے مختلف علاقوں میں اپنی مدد آپ کے تحت سڑکوں کی تعمیر کے منصوبے شروع کئے گئے ہیں ” ہمیں سڑک چاہئے“ کے نعرے کی بنیاد پر سول سوسائٹی نے تحریک بھی شروع کردی ہے۔روڈ انفراسٹرکچر صوبے کی تعمیروترقی کے لئے ناگزیر ہے۔یہاں پن بجلی گھروں کی تعمیر، سیاحت کے فروغ اور معدنی ذخائر سے استفادہ کرنے کےلئے بھی ہموار سڑکوں کی ضرورت ہے۔ صوبے کے پہاڑی علاقوں میں شاہراہوں کی تعمیر کےلئے صوبے کے پاس وسائل کی کمی رہی ہے۔چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت اگر صوبے کے تمام اضلاع، تحصیلوں اور قصبوں کو سڑکوں کے نیٹ ورک کے ذریعے ملایاجائے تو ترقی کے نئے راستے کھل سکتے ہیں ۔پشاور ڈیرہ موٹر وے، سوات ایکسپریس وے‘ دیر اور چکدرہ چترال ایکسپریس وے صوبے کے اہم منصوبے ہیں ان منصوبوں کی تکمیل سے صوبے میں سیاحت کو فروغ ملے گاکاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی ہوٹل انڈسٹری ترقی کے نئے دور میں داخل ہوگی اور لاکھوں افراد کو روزگار ملے گا۔صوبے میں شامل ہونے والے قبائلی اضلاع کو بھی روڈ نیٹ ورک کے ذریعے ملانے کا منصوبہ سی پیک میں شامل کرنے کی ضرورت ہے اقتصادی راہداری کے منصوبوں کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ چین اور پاکستان کے ماہرین ان منصوبوں کی مستقل نگرانی کرتے ہیں اور ان کے معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ جبکہ ہمارے قومی تعمیر کے ادارے جو تعمیراتی منصوبے مکمل کرتے ہیں ان کا معیار انتہائی ناقص ہوتا ہے کیونکہ منصوبے کی تخمینہ لاگت کا دو تہائی حصہ کمیشن کی نذر ہوجاتا ہے۔ ایک کروڑ روپے کی لاگت سے سڑک، سکول، ہسپتال اور حفاظتی پشتوں کی تعمیر کا جومنصوبہ شروع کیا جاتا ہے۔ تعمیراتی محکمہ مجموعی لاگت کا بیس فیصد کمیشن کے طور پر ٹھیکیدار سے پیشگی وصول کرتا ہے۔ بڑا ٹھیکیدار اپنا حصہ وصول کرکے اسے چھوٹے ٹھیکیداروں کے حوالے کرتا ہے۔ان کے کارندے اپنا اپنا حصہ بھی نکال لیتے ہیں۔ ٹھیکیدار کو منصوبہ مکمل ہونے کا سرٹیفیکیٹ دینے کی فیس الگ ہوتی ہے پھر اس کے افتتاح کا خرچہ بھی مجموعی لاگت سے نکالا جاتا ہے یوں ایک کروڑ کے منصوبے میں سے ساٹھ ستر لاکھ روپے کمیشن اور چائے پانی کی نذر ہوجاتے ہیں ۔ ایک کروڑ کا منصوبہ تیس لاکھ میں مکمل ہوجائے تو اس کے معیاری ہونے کی کیاضمانت ہوسکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ہماری سڑکیں ، نہریں، پشتے اور عمارتیں سال دو سال کے اندر ہی ناقابل استعمال ہوجاتی ہیں۔