خیبرپختونخوا پہاڑی و میدانی علاقوں پر مشتمل ہزارہ ڈویژن آٹھ اضلاع پر مشتمل ہے۔ سترہ ہزار سے مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلے اِس کا ڈویژنل ’صدر مقام‘ ایبٹ آباد نہ صرف آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا‘ وسطی و مرکزی شہر ہے بلکہ تجارت و کاروبار کے لحاظ سے بھی جداگانہ و امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ تعلیمی اداروں کا شہر ’ایبٹ آباد‘ سیاحتی علاقوں اور ’شاہراہ¿ قراقرم‘ پر مبنی ’چین پاکستان اِقتصادی راہداری منصوبے کا بھی حصہ ہے اور اِس کے اطراف میں جنت نظیر وادیاں اور سرسبزوشاداب پہاڑی سلسلے یہاں کے سیاحتی مقامات کی جان ہیں‘ جنہیں دیکھنے کے لئے اندرون و بیرون ملک سے سیاحوں کی آمد کا سلسلہ عمومی حالات میں سارا سال جاری رہتا ہے لیکن ہزارہ ڈویژن میں بالعموم اور ضلع ایبٹ آباد میں بلخصوص شاہراو¿ں کی حالت ناقابل یقین حد تک خراب ہے اور اِس کے باعث ہر قسم کے معمولات زندگی متاثر ہیں اور صورتحال اِس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ اب تو تعلیمی اِداروں اور دفاتر میں بروقت پہنچنا تک ممکن نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ چھ اکتوبر کے روز کمشنر ہزارہ ریاض خان محسود کی جانب سے شاہراو¿ں کی حالت زار پر ”گہری تشویش“ کے اظہار پر مبنی بیان سامنے آیا‘ جس میں اُنہوں نے متعلقہ محکموں کو مخاطب کرتے ہوئے وسطی شاہراہ پر جاری مرمت و بحالی کے کام کو جلد از جلد مکمل کرنے اور ٹریفک پولیس اہلکاروں کو آمدورفت بحال رکھنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کرنے کا حکم دیا۔ ایبٹ آباد کو جواب چاہئے کہ مواصلات‘ پینے کے صاف پانی اور صفائی سے جڑے دیرینہ مسائل حل کرنا کس کی بنیادی ذمہ داری ہے؟ کمشنر ہزارہ نے اپنے بیان میں متعلقہ وفاقی و صوبائی محکموں بشمول ’نیشنل ہائی وے اتھارٹی‘ کو مخاطب کرتے ہوئے ”سختی سے ہدایت“ کی ہے کہ شاہراہ قراقرم کی مرمت و بحالی کے کام کو جلد مکمل کرنے کےلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ سپلائی‘ منڈیاں اور میرپور پر بارش کا پانی سیلابی ریلوں کی صورت اپنے راستے میں آنے والی ہر شے بشمول سڑک تک کو بہا لے جاتاہے! فوراہ چوک سے ’اے پی ایس‘ تک شاہراہ قراقرم کے قریب 10کلومیٹر حصے کے دونوں اطراف تجاوزات کی نشاندہی کر لی گئی ہے تو اُس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہو رہا؟ واگزار کئے جانے والے رقبے پر فٹ پاتھ کی تعمیر اور اِس فٹ پاتھ کے پار بجلی و ٹیلی فون کے کھمبے اور پانی و گیس کے ترسیلی نظام کی پائپ لائنیں بچھانے جیسی منظم اور منصوبہ بندی کے تحت ترقیاتی کام ہونے چاہیئں۔ وقتی اور نمائشی طور پر کروڑوں روپے خرچ کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اِس کی شدت برقرار اور موجود رہے گی ضلعی حکومت کی موجودگی بھی ایبٹ آباد کے مسائل کا حل ثابت نہیں ہو سکی کیونکہ چھاو¿نی کے علاقوں پر مشتمل 5 اور تحصیل ایبٹ آباد کی 35 یونین کونسلیں مختلف صوبائی اور وفاقی اداروں کے درمیان کچھ اِس طرح تقسیم ہیں کہ اِن میں سے جس کسی سے شکایت کی جائے تو وہ اُنگلی دوسرے کی جانب اُٹھا دیتا ہے۔ سب اِدارے معزز ہیں لیکن اگر اِس پورے منظرنامے میں کسی ایک فریق کی بے توقیری ہو رہی ہے تو وہ اِیبٹ آباد کے باسی ہیںجن کے مسائل کا حل نہ تو اُن کے اپنے اختیار میں ہے اُور نہ ہی اُن کے مسائل بابت متعلقہ حکام و اِدارے خاطرخواہ دردمندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔