کورونا کاایک دور گزرچکاہے اوردوسرے دور کے حوالہ سے ابھی سے خدشات کا اظہار کیا جانے لگاہے چند ماہ قبل کورونا کی وباءنے انسانی زندگی کو مفلوج کردیا تھا۔ اس کی وجہ سے ٹرینیں ہی نہیں رکیں، ہاٹ بازار، مال اور شاپنگ سینٹر ہی بند نہیں ہوئے، کھیلوں کے عالمی مقابلے ہی ملتوی اور موقوف نہیں ہوئے، سماجی تقریبات کا سلسلہ ہی منقطع نہیں ہوا بلکہ بہت کچھ ہوا۔ اس بہت کچھ میں تعلیمی اداروں کا مقفل ہوجانا بھی شامل ہے جس کی وجہ سے طلبہ کا ناقابل بیان تعلیمی نقصان ہوا۔ اسی نقصان کو روکنے کے مقصد سے محکمہ تعلیم نے آن لائن ایجوکیشن کے مسائل سے واقفیت کے باوجود اساتذہ کو آن لائن تدریس کی ہدایت دی۔ تاہم، اس تمام عرصہ میں یہ بات شاید پہلی مرتبہ یا پہلے سے کہیں زیادہ سمجھ میں آئی کہ آن لائن ایجوکیشن کلاس روم ایجوکیشن کا نعم البدل نہ تو ہے نہ ہی ہوسکتی ہے۔ پہلی ہی مرتبہ یہ بھی سمجھ میں آیاکہ استاد اور طالب علم کا بالمشافہ جیسا دو‘ بدو‘ رابطہ بہتر اور موثر تعلیم کی بنیاد ہے۔ بہ الفاظ دیگر استاد اور طالب علم کے درمیان عکسی رابطہ نہیں، شخصی رابطہ ہی موثر تعلیم کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس سے کلاس روم کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے جو اَب سے پہلے تک شاید کبھی سمجھی نہیں گئی تھی۔ شخصی رابطہ کی اہمیت اس طرح بھی واضح ہوئی کہ جہاںبہت سے طلبہ کے پاس سمارٹ فون نہیں تھا وہیں بہت سے ایسے بھی تھے جن کے پاس سمارٹ فون بھی تھا اور نیٹ ورک کا اچھا خاصا پیکیج اور بلاتعطل نیٹ ورک بھی، اس کے باوجود وہ پڑھائی کا کلاس روم جیسا لطف نہیں لے سکے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن سے ایکچوئل اور ورچوئل کا فرق واضح ہوتا ہے۔ایکچوئل اور ورچوئل میں سب سے بڑا فرق ایکچوئل اور ورچوئل ہی کا ہے یعنی اصل اور نقل کا جس کی خوبیاں و خامیاں تو بعد میں سامنے آتی ہیں سب سے پہلے طلبہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آن لائن تعلیم متبادل ہے کلاس روم کی تعلیم کا یعنی یہ ایک مجبوری ہے جس کے سبب ا±ن میں مجبوری والی نفسیات پیدا ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کلاس روم تمام طلبہ کو جو یکساں مخصوص ماحول فراہم کرتا ہے وہ آن لائن میں ممکن نہیں کیونکہ اس سلسلے کے تحت طالب علم کو کلاس کا ماحول نہیں ملتا بلکہ وہ اپنے گھر کے ماحول میں ہوتا ہے جو کلاس روم کے یکساں مخصوص ماحول جیسا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ سے کلاس روم جیسی ذہنی یکسوئی پیدا نہیں ہوتی۔ تیسری وجہ ٹیچر کی موجودگی ہے جسے طلبہ ایک اہم محسن شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تدریس کے دوران اس کے چہرے کے ا±تار چڑھاﺅ حرکات و سکنات، آواز کا زیروبم، لہجہ کی حرارت اور ان سب کی وجہ سے پیدا ہونے والی مجموعی کیفیت طلبہ پر گہرا اثرڈالتی ہے۔ اس مجموعی کیفیت میں استاد کی چلت پھرت، کبھی اِس طالب علم اور کبھی ا±س طالب علم کی طرف دیکھنا، سوال کرنا، جواب حاصل کرنا، حوصلہ افزائی کرنا، ڈانٹنا اور سب سے بڑھ کر نگاہوں کا رابطہ یا بصری رابطہ (آئی کانٹیکٹ) کو بھی شامل کرلیجئے جو ’کلاس روم تدریس‘ کی اہم خصوصیات ہیں۔ یہ خصوصیات آن لائن میں بڑی حد تک مفقود ہیں۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ آن لائن تعلیم میں طالب علم کے پاس سکرین سے ہٹنے کا موقع ہوتا ہے جس کیلئے تکنیکی مسئلہ یا خرابی کا بہانہ بنایا جاسکتا ہے، کلاس روم میں یہ ممکن نہیں۔ پانچویں وجہ یہ ہے کہ کلاس روم میں جہاں استاد اور طالب علم کا دو‘ بدو‘ رابطہ ممکن ہوتا ہے وہیں تمام طلبہ ایک دوسرے سے بھی رابطہ بنا پاتے ہیں۔ یہ خوبی بھی کلاس روم کی تعلیم ہی کا خاصہ ہے، آن لائن تعلیم اس سے محروم ہے۔ چھٹی وجہ یہ ہے کہ کلاس روم کی تعلیم طلبہ میں ایک ڈسپلن پیدا کرتی ہے۔ آن لائن تعلیم ویسا ڈسپلن پیدا نہیں کرسکتی کیونکہ اس میں تو طلبہ کو گھر سے باہر ہی نہیں جانا ہے جبکہ سکول کیلئے ا±نہیں وقت پر جاگنا، تیار ہونا، گھر سے نکلنا وغیرہ کے مراحل درپیش ہوتے ہیں۔ اسباب اور بھی ہیں اور ان سب کی بنیاد پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تعلیم کا کوئی بھی طریقہ کلاس روم کی تعلیم کا متبادل نہیں ہوسکتا،مجبوری الگ بات ہے گویا اب تعلیم کے حصول میں کلاس روم یعنی کمرئہ جماعت کو بنیادی اکائی قراردینے کے لیے مزید کسی منطق اوربحث کی ضرورت ہی نہیں رہی ہم نے خود مشاہد ہ کیاکہ ورچوئل کلاسزکے دوران گھر میں بچے کس نیم دلی کے ساتھ سکرین کے سامنے براجمان رہے بصری رابطہ نہ ہونے کے نقصانات کااندازہ والدین بخوبی کرچکے ہیں اسی لیے سب کایہی مطالبہ تھاکہ اب سکول کھل جانے چاہئیں ساتھ ہی کلاس روم میں جسمانی ،اعصابی اور نفسیاتی تربیت اور مشقت کے جن مراحل سے گذرنا پڑتاہے اس کی اہمیت بھی سامنے آچکی ہے خدا نہ کرے کہ پھر سے کوئی ایسی وبا آئے کہ تعلیمی ادارے بند کرنا پڑیں کیونکہ ایکچوئل کی نسبت ورچوئل کے نقصانات سب نے خود دیکھ لیے ہیں ویسے بھی تعلیم وتربیت کے لیے میل جول ضروری ہوتاہے پہلے ہی سوشل میڈیا نے ہمیں ایک دوسرے سے کافی دور کردیاہے رہی سہی کسرلاک ڈاﺅن اور اس کے دوران ورچوئل کلاسز نے پوری کردی سماجی حیوان ہونے کی حیثیت سے انسان کسی بھی صورت معاشرہ سے کٹ کرنہیں رہ سکتا اور اس سلسلہ میں سوشل میڈیا جس طرح اسے معاشرہ سے کٹوانے میں مصروف ہے اس کے مضر اثرات مزید بدترین صورت میں جلد ہی سامنے آنے والے ہیں ۔