پیغام پاکستان کانفرنس کا ضابطہ اخلاق

اسلامی نظریاتی کونسل میں وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام پیغام پاکستان کانفرنس میں 20نکاتی ضابطہ اخلاق پر مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام نے اتفاق کر لیا ہے۔ ضابطہ اخلاق میں نفاذاسلام کے نام پر ریاست کے خلاف مسلح کاروائی، تشدد ، نفاق اور انتشار کی تمام صورتوں کو بغاوت قرار دیا گیا، کسی بھی مذہبی پلیٹ فارم سے فرقہ ورانہ تقاریر کی اجازت ہوگی اور نہ ہی میڈیا فرقہ وارانہ تقاریر یا پروگرام نشر کرے گا، غیرت کے نام پر قتل‘ قران پاک سے شادی ، ونی ، کاروکاری اور وٹہ سٹہ کی سختی سے ممانعت ہوگی ۔اجلاس میں وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹرقبلہ ایاز، نامور عالم دین مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن، پروفیسر ساجد میر ،مولانا محمد حنیف جالندھری ، ڈاکٹر راغب نعیمی، علامہ عارف واحدی، سید افتخار حسین نقوی، سید ضیا اللہ شاہ بخاری ،مولانا عبدالمالک، پیر نقیب الرحمن، ڈاکٹر معصوم یسین زئی اور راجہ ناصر عباس جیسے علماءاور مشائخ شریک تھے۔ تمام مسالک کے جید علماءنے ضابطہ اخلاق سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے اس پر دستخط کردیئے ۔ضابطہ اخلاق کے مطابق پاکستان کے دستور کو تسلیم کرنااور ریاست کے ساتھ وفاداری کا حلف نبھانا تمام شہریوں کا فرض قرار دیا گیا۔علمائے کرام نے عوام کو تلقین کی کہ ریاست کے خلاف لسانی، علاقائی اور مذہبی تحریکوں کا حصہ بننے سے گریز کیا جائے ، کوئی اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنے کا استحقاق نہیں رکھتا، جبر کرنا شریعت کی نفی ہے، آزادی اظہارآئین کے تحت شہریوں کا بنیادی حق ہے تاہم یہ حق اسلامی اقدار اور ملکی قوانین کے ماتحت ہے، اسلام خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے، اس لئے ملک میں خواتین کی تعلیم ، روزگار اور ووٹ کے حق کا تحفظ کیا جائے گا، سرکاری ، نجی اور مذہبی تعلیمی اداروں کے نصاب میں اختلاف رائے کے آداب کو شامل کیا جائے گا مسلمان کی تعریف وہی معتبر ہے جو دستور پاکستان میں درج ہے۔کسی کو اپنی مرضی و منشا کے مطابق مسلمان کی تعریف کرنے کا حق حاصل نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی، نظریاتی، مسلکی، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر مخالفین کو ملک دشمن، غدار اور باغی قرار دینا ایک عام روایت بن چکی ہے رواداری ، برداشت،صبراور صلہ رحمی کی اسلامی تعلیمات کو ہم نے بھلادیا ہے۔ دین سے دوری نے ہمیں مفادات کا پجاری بنادیا ہے۔ جس کا اسلام اور پاکستان کے دشمن بھرپور فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور ہمیں آپس میں لڑاکر کمزور کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں ستم بالائے ستم یہ ہے کہ دشمن ہمارے اپنوں کو ہی ہمارے خلاف آلہ کار کے طور پر استعمال کرتا ہے اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح کے ذریعے ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف مسلح کاروائیوں کو جائز قرار دے کر دہشت گردی کو فروغ دیا گیا۔اغیار نے اس کا ناجائزفائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف مسلمانوں کو دنیا بھر میں بدنام کیا بلکہ دین اسلام کو بھی دہشت گرد ی سے نتھی کردیا ہے گذشتہ چند عشروں میں دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے وہ اس تلخ حقیقت کا مظہر ہے۔ دین اسلام نے تو پرامن بقائے باہمی، انسانیت کے احترام، عفو و درگذر، صبرو استقامت، برداشت، میانہ روی، رواداری، بڑوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت اور دوسروں کے خیالات اور نظریات کا احترام کرنے کا درس دیتا ہے۔ مادہ پرستی، افراتفری اور کشیدگی کے موجودہ ماحول میں اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے مسلمانوں کے لئے ایک متفقہ ضابطہ اخلاق کی تیار ی وقت کی اہم ضرورت تھی۔ تمام مسالک کے جید علماء، مشائخ اور بزرگوں کا مل بیٹھ کر فرزندان توحید کے لئے ایک ضابطہ حیات وضع کرنا اورفروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر دین کے متفقہ نکات کی ترویج و فروغ بکھری ہوئی امت مسلمہ کو دوبارہ راہ راست پرلانے کی قابل تحسین کاوش ہے۔ اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ علمائے کرام نے جس ضابطہ اخلاق کو طویل بحث و تمحیص اورعرق ریزی کے ساتھ تیار کیا ہے اسے معاشرے میں ریاستی اداروں کے ذریعے اس کی اصل روح کے ساتھ نافذ کرے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ جس کی موجودہ حالات میں اشد ضرورت ہے کیونکہ علماءاور متعلقہ حلقوں کی طرف سے جو کوشش کی گئی وہ یقینا قابل ستائش ہے تاہم اس کے مثبت اثرات اور ثمرات سے اس وقت ہی استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ جب یہ تجاویز پر تندہی کے ساتھ عمل ہو اور یہ ضابطہ اخلاق عملی طور پر نافذ ہو اور دیکھا جائے تو اس وقت یہ ایک دور رس اثرات کا حامل قدم ہے۔