اس محفل میں ہے کوئی ہم سا

اکتوبر دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے جو دیسی مہینوں کے حساب سے یہ گلابی سردی کے مہینے کاتک کا آ غاز ہے، ساون بھادوں کے بھیگے بھیگے معتدل موسم کے بعد اسوج کا مہینہ قدرے گرم ہو تا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ساون بھادوں کی بارشوں کے بعد فضا کی آلودگی بڑی حد تک دھل چکی ہو تی ہے اس لئے سورج کی حدتیں براہ راست زمین پر پڑتی ہیں ،اسی وجہ سے پشتو روزمرہ کے مطابق ” اسوج کی دھوپ گدھا جیسا سخت جان جا نور بھی برداشت نہیں کر سکتا“ مگر اب تو اسوج نے کاتک کےلئے جگہ خالی کر دی ہے ، پھر یہ موسم معتدل کیوں نہیں ہو رہا، کاتک تو ہلکی سردی کا زمانہ ہوا کرتا ہے ¾دو ایک دنوں سے جون جولائی کے موسموں والی حدت اور شدت کا سامنا ہے، صبح دم سورج نکلنے سے پہلے فرحت بخش خنکی ہو تی ہے مگر سورج نکلنے کے بعد اپنے ہونے کا بھرپور احساس دلانا شروع کر دیتا ہے، پنکھوں کی دھیمی ہونے والی رفتار کو پھر سے تیز تر کر دیا گیا ہے، موسمی پیشگوئی بھی مسلسل ایک ہی کہانی سنا رہی ہے ” موسم گرم اور خشک رہے گا “ یار لوگوں کو بس ایک بارش کا انتظارہے جو گرم موسم کی سواری کو چلتا کردے ،بصورت دیگر گلابی سردی کا لطف لئے بغیر ہی ہم نومبر دسمبر کی نیلی سردی اور پت جھڑ کے سنہری موسم کی قلمرو میں داخل ہو جائیں گے ، پت جھڑ کا موسم اگر چہ شہروں میں تو اپنی چھب نہیں دکھلاتا کیونکہ درخت کٹ چکے ہیں اور پارک سمٹ چکے ہیں پھر یار لوگوں کے پاس اتنا وقت بھی کہاں ہوتا ہے وہ کبھی بھری بہار کی سیر کرنے نہیں نکلتے چہ جائیکہ وہ خزاں کا سنہرا موسم دیکھنے پارکوں کا رخ کریں، گاو¿ں میں البتہ اس موسم کی ہوائیں درختوں سے جب خشک پتے جھاڑ رہی ہوتی ہیں تو وہ منظر بھی دیدنی ہو تا ہے، کوئی کوئی پتہ انکاری بھی ہو جاتا ہے اور کسی پتے کے ساتھ ہوا کھیلنا بھی شروع کر دیتی ہے لیکن بالآخر ہوا جیت جاتی ہے تب بے بدل شاعر سجاد بابر اس موسم میں درخت کی سسکیاں اور دعائیں تک سننے پر قادر ہو جاتا ہے ۔
مجھے چھاو¿ں میں کئی مرتبہ یہ دعا شجر کی سنائی دی۔
میرے زرد پتے کی خیر ہو، تھا ہوا کے ساتھ گیا ہوا
باہر کی دنیا میں آلودگی کم ہونے کی وجہ سے ویسے تو سارے موسم خوبصورت ہوتے ہیں مگر پت جھڑ کا سنہرا موسم زیادہ خوبصورت ہوتا ہے ، اس کا آغاز ستمبر کے مہینے سے اس وقت ہو جاتا ہے جس وقت امریکہ کے کچھ علاقوں میں درختوں کے پتے گرے بغیر اپنی رنگت تبدیل کر دیتے ہیں یہ خوشنما منظر میں نے میساچوسٹ کے شہر کیپ کاڈ میں خود بھی دیکھا ہے جب میں اکیس برس پہلے ہمدم ِمہربان عتیق صدیقی کے پاس ان کے موٹل ” کیپٹن جوناتھن ہوٹل“ میں یہ دلفریب موسم گزار رہا تھا اس وقت کیپ کاڈ پر ہی کہی گئی میری نظم میں اس کا اظہاریہ بھی مو جود ہے۔
 یہ سمندر یہ شب یہ بھیگی ہوا
 روح میں چاند سا اترتا ہے
 رنگ پتے بدلنے لگتے ہیں
 جب ستمبر کا مینہ برستا ہے
 ہر چند وہاں خزاں کا موسم اپنے جلو میں زمستان کی برفیلی ہوائیں بھی لاتا ہے اور جن علاقوں میں برف باری ہوتی ہے وہاں درختوں پر جوگزر رہی ہوتی ہے اس کا بیان تو ممکن نہیں پشتو ہی کے روزمرہ کے مطابق آگ کی حدّت کا صحیح اندازہ تو اس جگہ کو ہو تا ہے جس جگہ آ گ لگی ہو یا پھر جیسا کہ کالی داس نے اپنے ناٹک ” شکنتلا“ میں شکنتلا کی خوبصورتی کا اظہار اپنے ایک کردار کی زبانی اس طرح کیا تھا ” شکنتلا کو میری آنکھوں نے
دیکھا ہے زبان سے اس کا حسن کیسے بیان کروں، البتہ یہ ایک صورت میں ممکن ہے کہ یا میری آنکھیں قوت گویائی حاصل کر لیں یا میری زبان کو بینائی عطا ہو جائے “ لیکن جب دھوپ بھرے گدگداتے دنوں میں درختوں سے برف پگھلتی ہے اور کہیں کہیں سے درختوں کے خوش رنگ پتے جھانکنا شروع کر دیتے ہیں تو یہ جادوئی منظر دیکھنے کےلئے میں نے بارہا درختوں پربھاگتی دوڑتی گلہریوں کو اور تھانولوں میں اچھلتے کودتے خرگوشوں کو بھی حیران و ششدر دیکھا ہے ، بات امریکہ کے پت جھڑ کی چلی تو کولوراڈو کے شہر ڈینور میں بھی یہ موسم دیدنی ہو تا ہے جسے دیکھ کر افراز نے ایک بار بے ساختہ کہا تھا۔
 بہت بھاتا ہے پت جھڑ ’ڈینور ‘ کا۔ پشاو ر کا مگر نیلا دسمبر
ویسے تو یہ بات ہندکو کے روزمرہ کے مطابق ہے کہ ” بہار باغ کی نہیں دل کی ہو تی ہے“ تاہم پشاور میں خزاں کے موسم کا اپنا ایک لطف ہوتا ہے خاص طور پر اس موسم میں گل داو¿دی کی بہاربھی دیکھنے والی ہو تی ہے، یہ خوبصورت پھول ان گنت رنگوں میں کھلتا ہے اور ہر رنگ اپنے اندر بہت کشش رکھتا ہے، پھر اس پھول کا سائز بھی بہت بڑا مگر بلا کی جاذبیت لئے ہوئے ہوتا ہے، پاکستان بھر میں اس موسم میں خزاں کے پھولوں کی نمائشیں (آرائش ِگل ) لگتی ہیں، پشاور کے خالد بن ولید پارک(کمپنی باغ)میںہرسال د سمبر میں ایک بڑی نمائش لگتی ہے، ایک زمانے میں تو بڑی رونق ہوا کرتی تھی، سرد موسم کے باوجود پورا شہر امڈ آتا تھا، پھر یار لوگوں نے نئی دلچسپیاں ڈھونڈ لیں، خود میں کم و بیش ہر سال اس حسین موسم میں شہر سے باہر چلا جاتا ہوں، پشاور میں ہوں تو ضرور جاتا ہوں بلکہ نوشہرہ بھی جاتا ہوں جہاں باغ ِ جناح میں گل داو¿دی کی ہر سال ایک عالی شان نمائش لگتی تھی اور وہاں جگہ زیادہ ہونے کی وجہ سے طرح طرح کے ’ پیٹرن‘ بنا کر اس میں پھول سجائے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر بے ساختہ منہ سے واہ نکلتی ہے لیکن وہاں جب بھی جانا ہوا پھول تو بہت زیادہ ہو تے ہیں مگر انہیں دیکھنے والی آنکھوں کی تعداد بہت کم ہو تی ہے،یار لوگوں نے فطرت سے ناتا توڑ دیا تو فطرت نے بھی آنکھیں پھیر لیں اور ہمارے دور کو تنہائی کا خوگر بنا دیا جسے دیکھو چپ اور سوچ میں ڈوبا ہوا لگتا ہے ذکر آرائش گل کا ہو رہا تھا جسے دیکھنے کم کم لوگ آتے ہیں تاہم جو آتے ہیں وہ تصویر بنانا نہیں بھولتے خیر اب تو جتنا اپنے پاس سیل فون رکھنالازمی ہو گیا ہے اس سے زیادہ لازمی تصویر بنانا بھی ہو گیا ہے لیکن جب یہ چلن شروع نہیں ہوا تھا اس وقت بھی ایسی نمائشوں میں یار لوگ بڑے ذوق اور شوق سے دور تک پھیلے ہوئے پھولوں کے ساتھ تصویریں بنایا کرتے تھے، ان لوگوں میں چاند چہرے اور ستارہ آنکھیں رکھنے والے ” پھول “بھی تصویر بنانے لگتے حالانکہ ان کے تصویربنانے کا انداز صاف چغلی کھا رہا ہوتا کہ وہ ’ پھول‘ تصویر بناتے ہوئے زیر لب قتیل شفائی کا لکھا اور طاہرہ سیّد کا گایا ہوا یہ گیت گنگنارہے ہیں۔
 یہ محفل جو آج سجی ہے
 اس محفل میں ہے کوئی ہم سا
 ہم سا ہو تو سامنے آئے