جس تیزی سے گاﺅں اورقصبات نظرانداز ہو رہے ہیں اسی تیزی سے شہروں کے پھیلاﺅ کامصنوعی عمل بھی جاری ہے جس سے معاشرتی توازن بگڑتاجارہاہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دیہی علاقوں کے لوگ شہروں میں رہنے بسنے والوں کے مقابلے میں زیادہ صحتمند ہوتے ہیں‘ ان کی صحت کا راز وہ”ہری بھری“ زندگی ہے جو ا±ن کی شناخت ہے‘ کھلی فضا میں سانس لینا اور محنت مشقت کرنا ا±ن کی دوسری شناخت ہے‘ شہروں میں ہری بھری زندگی ڈرائنگ روم کے وال پیپرز پر یا گھروں میں لگائے گئے آدھے فطری اور آدھے مصنوعی پودوں ہی میں نظر آتی ہے جو آکسیجن کی فراہمی یا فطرت سے قربت کے مقصد سے کم اور گھر کی خوبصورتی کے مقصد سے زیادہ لگائے جاتے ہیں۔ شہری زندگی میں کثافت ہے، آلودگی ہے، ہیجان ہے، اور خود فراموشی ہے اس کے باوجود علاقوں کو ”شہریانے“ (اربنائزیشن) کا جنون ہے کہ کم نہیں ہوتا‘ اسی جنون کا نتیجہ ہے کہ آج د±نیا کی پچاس فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے جبکہ شہر انسانی زندگی سے اپنی قیمت وصول کئے بغیر نہیں رہتے‘وہ زندگی کا انداز ہی بدل دیتے ہیں‘ شہروں میں ”جدید کاری“ کی وجہ سے ایک سے بڑھ کر ایک طبی سہولت دستیاب ہوتی ہے، لوگ بہت کچھ جاننے اور سمجھنے لگتے ہیں اس لئے ا±مور صحت سے ا±ن کی واقفیت بڑھ جاتی ہے چنانچہ ان لوگوں کو دیہی آبادی کے مقابلے میں زیادہ صحتمند ہونا چاہئے مگر ایسا نہیں ہے۔ اربنائزیشن، ماڈرنائزیشن کی علامت تو ہے مگر صحت بگڑنے پر اچھی طبی سہولت ملنا بہتر ہے یا صحت کا نہ بگڑنا بہتر؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہزار خرابیوں کے باوجود سماجی، معاشی، تعلیمی، ہر زاویئے سے کشش شہر ہی میں محسوس ہوتی ہے چنانچہ ضرورت تھی کہ ”شہریانے“ کے ماہرین شہروں کی تعمیر میں انسانی زندگی کی نزاکتوں اور ضرورتوں کو ملحوظ رکھتے مگر ان کی ناقص منصوبہ بندی نے شہر بسانے سے پہلے ا±جاڑے ہیں اور لوگوں کے سانس لینے سے پہلے فضا میں کثافت گھولی ہے‘کاش ہم ہوا سے پوچھ پاتے او رہوا ہمیں بتا پاتی کہ شہروں میں داخل ہوتے ہوئے اسے کیا محسوس ہوتا ہے اور کنکریٹ کے جنگل دیکھ کر اس پر کیا گزرتی ہے۔ اگر اسے گویائی اور ہمیں اس کی سرگوشی کو سمجھنے کی صلاحیت حاصل ہو جائے تو بہت ممکن ہے کہ ہوا اپنی بپتا سنائے کہ شہروں میں تو اس کا بھی دم گھٹتا ہے‘ حد تو یہ ہے کہ جو لوگ دیہی علاقوں سے شہروں کا ر±خ کرتے ہیں وہ بھی اپنے عادات و اطوار بھول کر شہری طور طریقے اپنا لیتے ہیں جہاں رہنے بسنے والوں نے ماحول سے دوستی کا سبق بھلا دیا ہے‘ اب یہا ں ہر ایک نے طلوع وغروب آفتاب کے نظارے فراموش کردیئے ہیں‘ درختوں اور پھول پتیوں سے گفتگو ترک کردی ہے۔ پرندوں ، تتلیوں اور جگنوﺅں سے اپنائیت کا رشتہ ختم کردیا ہے۔ مٹی کی سوندھی خوشبو سے رابطہ توڑ لیا ہے۔ کھل کر سانس لینے کی انہیں کبھی یاد بھی نہیں آتی ۔ ان حالات میں دیہات اورقصبات کو بچانے اور وہاں سے شہروں کی طرف نقل مکانی روکنے کے لئے نئی راہیں تلاش کرنا ضروری ہیں یہ ہوسکتا ہے کہ ہم چھوٹے شہروں اور قصبات کو نئی زندگی عطا کریں اور صرف بڑے شہروں کی ترقی پر اصرار نہ کریں۔ بجلی اور پانی کی فراہمی اورانفراسٹرکچرکی بہتری کےلئے ہنگامی اقدامات پرتوجہ دیں بڑے شہروں کے مقابلے میںدیہات و قصبات ماحولیاتی آلودگی سے پاک رہتے ہیں چنانچہ ان میں معیار زندگی بہتر ہوتا ہے‘یہی چند خوبیاں نہیں بلکہ قصبات میں لوگوں کا باہمی ارتباط بھی بڑے شہروں کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔ یہ فطری طور پر عمل پذیر ہوتا ہے‘ عوام کا ایک دوسرے سے میل جول یہاں کی سماجی زندگی کا جزو لانیفک ہوتا ہے‘ لوگ بازار میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو سڑک کے کنارے کھڑے رہ کر ایک دوسرے کا حال جان لیتے ہیں‘ آپ نے دیکھا ہوگا کہ چھوٹے شہروں یا قصبات میں لوگ اپنے سبزی فروش تک کو نام سے جانتے ہیں ‘ انہی وجوہات کی بناءپر ترقی یافتہ ملکوں کے لوگوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ بڑے شہروں کو چھوڑ کر دیہاتوں کا ر±خ کرتے ہیں اور وہیں جاکرسکونت یا بودوباش اختیار کرلیتے ہیں اسی طرح زراعت کو اب ایک نئے انداز سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم بڑے شہروں پر محنت کرتے ہیں اور ا±نہی کو اعلیٰ معیاری بنانے پر اپنی توانائی، وقت اور وسائل صرف کرتے ہیںجس سے نظراندازہونے کے سبب دیہات اور قصبات سے لوگ پھر ہجرت پرمجبورہوتے جاتے ہیںکیاہی بہتر ہوکہ حکومت دیہات وقصبات کے حوالہ سے نئے حالات کے تناظر میں نئی حکمت عملی وضع کرکے ”شہریانے“یعنی اربنائزیشن کے عمل کو ہرصورت روکنے کے لئے قدم بڑھائے -