خیبر پختونخوا میں صر ف رواں سال کے دوران182 واقعات میں184 بچوں اور بچیوں کو تشددکا نشانہ بنایا گیا‘ ان میں پانچ بچے اور بچیاں ایسی بھی ہیں جن کو تشددکے بعدثبوت مٹانے کی غرض سے قتل کردیا گیا ‘ اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ اس ننھی جان اور اس کے والدین پر کیا گزرے گی ‘ ہم لوگ دن بدن مزید بے حس ہوتے جا رہے ہیں چھوٹے جرائم کے بعد اب بڑے جرائم عام سی بات لگنے لگی ہے ‘ لوگ اخبار میں سرخی پڑھتے ہیں کہ فلاں بچے یا بچی کو تشددکے بعد ابدی نیندسلا دیا گیا ہے یا موٹروے پر خاتون کو بچوں کے سامنے تشددکا نشانہ بنایا گیا سر ہلا کر افسوس کرتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں یہ تو ان گھروں اور خاندانوں کو ہی علم ہوتا کہ وہ کس اذیت اور کرب سے گزر رہے ہوتے ہیں اور ان کی آنے والی زندگی میں ان واقعات کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں گزشتہ دنوں چارسدہ میں اسی نوعیت کا ایک واقعہ تقریباً ڈھائی سالہ بچی زینب کے ساتھ رونما ہوا تو ملک بھر میں ایک بار پھر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اس معصوم بچی کی لاش اغواءکے بعد مقامی کھیتوں سے برآمد ہوئی حکومت کے بڑوں نے بھی نوٹس لیا ¾کل کسی اور نوعیت کا واقعہ ہو جائے گا اورلوگ اس بار ے میں بھول کر نئے واقعے پر بات کرتے لگ جائیں گے¾ قصور کی زینب کے واقعے بعد ملزم کوپھانسی بھی دی گئی مگر اس سے بھی لوگ عبرت حاصل نہیں کر رہے ¾اب سبسے بڑی ذمہ داری والدین ‘ معاشرے ‘ اساتذہ اور ساتھ ہی حکومت اور اس کے اداروں پر آتی ہے کہ وہ بچوں میں اس حوالے سے آگاہی پیدا کریں کہ کس طرح خود کو محفوظ رکھنا ہے کسی کے ساتھ اکیلے باہر نہیں جانا اور کسی مشکوک حرکت کی صورت میں والدین یا بڑوں کو آگاہ کرنا ہے بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس قسم کے واقعات دبائے جاتے ہیں جس سے درندے شہ پا کر مزید آگے بڑھتے ہیں اور محفوظ اور آسان شکار تلاش کرتے ہیں ‘ والدین کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو تحفظ فراہم کریں وہاں ان کے لئے بچوں کو یہ تربیت اور تعلیم دینا بھی ضروری ہے کہ اور کسی بچی یا بچے کو غلط نظر سے نہ دیکھیں ¾ایسے لوگوں کو نہ صرف بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے بلکہ انہیں اسی طرح زبردستی روکنا بھی ضروری ہے جس طرح گزشتہ دنوں ایک نوجوان نے ایسے ہی ایک شخص کو اس وقت روکا جب وہ ایک اجنبی بچی کو موٹرسائیکل پر سوار کرا کرلے جا رہا تھا اس نوجوان نے آدمی کا پیچھا کیا اس کو بیچ سڑک پر روکا اور اس کی سب کے سامنے دھلائی کرکے بچی کو بچایا ‘ جب والدین اور عوام سب اپنا کردار ادا کریں گے تو اس قسم کے واقعات روکے جا سکیں گے ورنہ ہر چند دن بعد اس نوعیت کا کوئی بڑا واقعہ رونما ہو گا ایک آدھ دن بحث ہو گی اور پھر کوئی اور واقعہ ہو گا اور لوگ بھول جائیں گے ¾اگر اس سال اعدادو شمار دیکھے جائیں تویہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر گاﺅں ¾ہر محلے اور ہر جگہ بچے غیر محفوظ ہیں ¾اسی سال سب سے زیادہ واقعات ڈیرہ اسماعیل خان پولیس کو رپورٹ کئے گئے اس ضلع میں ان واقعات کی تعداد34 ہے ¾پشاور میں رپورٹ کئے گئے کیسز کی تعداد26 ‘ مردان19 ‘ سوات17 نوشہرہ13 چارسدہ6 صوابی7 بونیر6 شانگلہ3 دیر پائیں7 دیر بالا6 چترال ایک ایبٹ آباد5 ہری پور4مانسہرہ8 تورغر 1 کوہاٹ9 کرک4 بنوں3 اور لکی مروت میں4 رہی ‘ واضح رہے کہ یہ صرف وہ تعداد ہے جن میں کیسز پولیس کو رپورٹ کئے گئے ہیں زیادہ تعداد میں واقعات آپس میں جرگہ کرکے حل کر دئیے جاتے ہیں ¾خیبر پختونخوا پولیس کے انسپکٹر جنرل ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی نے اس حوالے سے راقم کو بتایا کہ ان واقعات میں اس سال235 ملزمان گرفتار کئے جا چکے ہیںجبکہ شفافیت اور ہر حال میں کیس رجسٹر کرنے کی ہدایات کے باوجود اس سال بچوں کے تشددکے واقعات کی تعداد پچھلے سالوں کے مقابلے میں کم ہے آئی جی خیبر پختونخوا کے مطابق حکومت ‘ ادارے اور عوام سب کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے اور خصوصاً عوام میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کیسز کو رپورٹ کرکے اور ملزمان کو سزا دلوانے سے ہی ان واقعات کی حوصلہ شکنی ہو گی ¾سزا کے ساتھ ساتھ حکومت کو اس حوالے سے آگاہی پیدا کرنے اور معاشرے کے بڑوں اور والدین کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان پھول جیسے بچوں کو محفوظ رکھا جاسکے تاکہ کسی ایسے واقعات کا شکار نہ ہوں جس کے نقش ان کے آنے والی ساری زندگی کو متاثر کر سکیں۔