ہمارے عہد کا سرسید

سرکاردوعالم خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو پہلی وحی غار حرا میں نازل ہوئی اس کا پہلاحرف” اقرائ“ حصول علم کے حوالے سے ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے لکھنے پڑھنے اور حصول علم کو کتنی اہمیت دی ہے جب اقوام عالم جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہی تھیں تب اسلام نے علم کی شمع روشن کی جس نے ساری دنیاکو منور کردیا جب تک علم و تحقیق پر مسلمانوں کی توجہ مرکوز رہی ہفت اقلیم پر ان کی حکمرانی رہی پھر رفتہ رفتہ مسلمان علم و ہنر اور دین سے دور ہوتے رہے اور عروج سے زوال کی طرف ان کا سفر شروع ہوگیا وہ غالب سے مغلوب اور حاکم سے محکوم بن گئے اس دوران مولانا الطاف حسین حالی نے مدوجذر اسلام لکھ کر مسلمانوںکو جگانے کی کوشش کی اور کبھی اقبال نے بانگ درا‘ ضرب کلیم‘ بال جبریل‘ ارمغان حجاز‘ پیام مشرق‘ اسرار خود ی اور رموز بے خودی لکھ کر مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے اور انہیں علم و تحقیق کی طرف لانے کی کوشش کی مصر میں الازہر اور ہندوستان میں علی گڑھ یونیورسٹی قائم کرکے مسلمانوں کو علم و ہنرسے آراستہ کرنے کی ہمارے اسلاف نے کوشش کی علم کی ترویج کیلئے ہر دور میں حالی‘ سرسید اور اقبال پیدا ہوتے رہے ہیں موجودہ دورمیں بھی کوہ ہندوکش کے دامن میں بسنے والا ایک درویش اپنی قوم کے بچوں کو جہالت کے تاریک غاروں سے نکال کر علم و ہنر کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے شب و روز مگن ہے بظاہر مجذوب نظر آنے والا یہ سیدھا سادہ انسان انسانیت کی بے لوث خدمت کے جذبے سے سرشار علم کا علم اٹھائے اکیلے ہی سفر یہ نکلا تھا ماں باپ نے ان کا نام ہدایت اللہ رکھا جب ہوش سنبھالا تو اپنے نام کی لاج رکھنے کا مصمم ارادہ کیا‘ ریجنل آرگنائزیشن فارسپورٹ ایجوکیشن(روز) کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کی اور اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے گزشتہ 30سالوں سے غریب اور نادار بچوں کو زیورعلم سے آراستہ کرکے معاشرے کا مفید شہری بنانے کے مشن پر کاربند ہے ہدایت اللہ کے کام کرنے کا انداز بھی منفرد ہے وہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے نادار‘ غریب اور یتیم بچوں کی مفت تعلیم اور رہائش کیلئے معاہدے کرتا ہے ان کے ارادے نیک اور نیت صاف ہے اسلئے وہ جہاں بھی جاتا اور اپنا مدعا بیان کرتا ہے نفی میں جواب نہیں ملتا کیونکہ لوگوںکو معلوم ہے کہ وہ اپنی ذات کیلئے نہیں دکھی انسانیت کی بھلائی کیلئے کام کرتا ہے اپنے قیام کے تین عشروں میں روز نے چترال جیسے دور افتادہ اور پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے تین ہزار سے زائد غریب اور نادار بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کر چکی ہے جن میں ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ بینکرز شامل ہیں روز کے سکالر شپ پروگرام سے استفادہ کرکے ہزاروں افراد باعزت روزگار حاصل کر چکے ہیں اور مزید سینکڑوں طلبہ و طالبات مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں60 فیصد طالبات اور40فیصد طلباءشامل ہیں روز سکالر شپ حاصل کرنے والوں کیلئے صرف ایک ہی شرط رکھی گئی ہے کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرکے جب روزگار حاصل کریں تو کم از کم ایک غریب بچے کی تعلیم کی ذمہ داری اٹھائیں اس طرح دیئے سے دیا جلتا رہے اور علم کی روشنی پھیلتی رہے روز صرف اعلیٰ تعلیم کیلئے ہی سکالر شپ نہیں دیتی بلکہ پرائمری‘ مڈل‘ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے درجے میں ان نادار بچوں کے تعلیمی اخراجات اٹھاتی ہے جو یہ اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے روز کے تعلیمی پروگرام سے استفادہ کرنے والوں میں جسمانی طورپر معذور درجنوں بچے بھی شامل ہیں ہدایت اللہ کا کہناہے کہ اس نے روز کے فنڈ کی ایک پائی بھی اپنے خاندان پر خرچ نہیں کی محنت مزدوری کرکے گھر کاخرچہ پورا کرتاہے ان کا کہنا ہے کہ دنیا مخیر لوگوں سے بھری ہے انہیں صرف یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ ان کی دی ہوئی رقم مستحقین پر خرچ ہوگی تو وہ دل اور ہاتھ دنوں کھول کر عطیات دیتے ہیں ہماری پسماندگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم تعلیم‘ صحت‘ روزگار اور شہری سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری قرار دے کر تن بہ تقدیر بنے بیٹھے ہیں معاشرے کے ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے ہم سب پر معاشرے کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جب قوموں نے ترقی کے منازل عبور کئے ہیں ان کی خاصیت یہی تھی کہ انہوں نے اپنے حصے کا کردار ادا کیا جس دن ہمارے ذہنوں میں بھی یہ سوچ پیدا ہوگی ہمیں ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا بے شک ہر شخص ہدایت اللہ نہیں بن سکتا لیکن اس کے مشن کی تکمیل میں مددگار تو بن سکتے ہیں معاشرے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے حصے کاکردار اداکرنا ہوگا۔