پہلے ایسی حالت نہ تھی امتحانات ہوجاتے کچھ طلبہ کامیاب تو کچھ ناکام رہتے ناکام رہنے والے اگلے سال پھر قسمت آزمائی کرتے دوسری بار بھی ناکام رہتے تو اطمینان سے تعلیمی سلسلہ منقطع کرکے کوئی کام ہنرسیکھنا شروع کردیتے مگر گزشتہ چند سال سے ایک خطرنا ک رجحان تیز ی سے پورے معاشرہ کو اپنی لپیٹ میں لینے لگاہے امتحانات میں ناکامی پر بچے اب خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھاتے جارہے ہیں کبھی تو مایوسی کی وجہ سے اور کبھی ناکامی پر والدین کی ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ سے یاتو خود کو گولی ماردیتے ہیں ،پھانسی چڑھ جاتے ہیں یا پھر جان لیوا گولیاں کھالیتے ہیں ‘صاف دکھائی دے رہاہے کہ ہمارے بچے اورنوجوان تیزی سے ذہنی انتشارکاشکارہوتے جارہے ہیں ‘نوجوانوں میں ذہنی انتشار کے کئی عناصر ہیں ۔ نوجوانوں میں ذہنی تناﺅ اور مایوسی پیدا کرنے والے اِن عناصر میں اس ملک کا موجودہ تعلیمی نظام بھی ہے لہٰذا والدین کے جی یا پہلی دوسری جماعت کے طالب علم کیلئے ٹیوشن کو لازمی سمجھتے ہیں۔ کچھ ٹیوٹر ا±نھیں یہ یقین بھی دلاتے رہتے ہیں کہ نچلی جماعت ہی سے ٹیوشن ایک لازمی چیز ہے اسی طرح ملک میں سب سے زیادہ ذہنی تناﺅ پیدا کرنے میں امتحانی نظام بھی اہم ہے ‘اکثر بچے امتحان کیلئے دو ‘تین بار کوشش کرتے رہتے ہیںاور ہر بار کی ناکامی پر وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے آنے پر ہر سال کئی طلبہ اپنی زندگی کے تعلق سے انتہائی قدم بھی ا±ٹھاتے ہیں۔ہم نے اس سوال کاجواب ڈھونڈنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ کیا ہمارا سماج ‘میڈیا اور ہمار ا تعلیمی نظام مایوس نوجوانوں کے کارخانے تشکیل دے رہا ہے؟ صرف زبانی جمع خرچ کے بجائے مثبت رویّہ اپنانا ہی واحد علاج ہے طلبہ کے ڈپریشن و ذہنی انتشار کا۔آج ہر چھوٹے بڑے امتحان کے رزلٹ کے بعد ہمارے طلبہ شدید مایوسی کا شکار ہورہے ہیں اور ان میںکچھ تو خود کشی جیسا انتہائی قدم بھی ا±ٹھارہے ہیں۔ ہمارے یہاں ایسے معاشرے میں بد دِلی، ناکامی اور مایوسی کے نتیجے میں فرد کے اندر جنم لینے والی کم ہمّتی اور بددِلی کے ایک انتہائی منفی اور سفّاک ردِّ عمل سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ضروری ہوچکاہے کہ تھوڑا ساوقت اسکے لئے بھی نکالا جائے کہ ہم اپنے گھروں میں ، تعلیمی اداروں میںاور معاشرے میںان طلبہ یا دیگر نوجوانوں کی شناخت کیسے کریں جو زندگی سے مقابلے کی سکت کھوچکے ہیں اورزندگی سے منہ موڑنے تک کا منصوبہ تیار کر رہے ہیں ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار طالب علم اپنی زندگی کے تعلق سے کسی انتہائی قدم کو یک بیک یا اچانک نہیں ا±ٹھاتا ایسے کسی قدم سے پہلے وہ الگ تھلگ رہنا شروع کردیتا ہے گھر کے لوگوںسے بھی وہ ملنا جلنا بند کردیتا ہے البتہ گھر کے لوگ اس تبدیلی کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، رشتوں میں دراڑ بس یہی سے شروع ہوجاتی ہے‘ اس کے کھانے پینے کے اوقات میں تبدیلی آجاتی ہے اس نمایاں تبدیلی پر بھی کوئی دھیان نہیں دیتا کھانے کے بارے میںگھر میںجب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کھانے میںکیا پسند کرے گاتو عام طور پر اس کا جواب ہوتاہے ’کچھ بھی‘۔ یہاں اس کے مزاج میںیہ تبدیلی اسلئے آتی ہے کہ وہ زندگی کو خیر باد کرنا طے کرچکا ہے۔ اسلئے اس کی کھانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیںہے اس دَور سے گزرتے ہوئے وہ اکثر تنہائی پسند بن جاتاہے‘ اپنے کمرے کے دروازے کی چٹخنی لگاکر حتیٰ کہ کمرے کی لائٹ بند کرکے وہ بالکل تنہا رہنا پسند کرتا ہے ‘ وہ نوجوان اکثر خالی الذہن بیٹھا رہتا ہے، اس حالت میں وہ ایک جگہ پر بیٹھ کر گھنٹوں صرف خلاءمیںگھورتا رہتاہے۔ اس حالت میں بھی البتہ وہ اس کے ساتھ بیٹھے افراد کو باور کراتا رہتا ہے کہ وہ اس محفل میں جسمانی طور پر بھی حاضر ہی ہے کیوں کہ اس محفل کے سارے لطائف پر وہ ہنستا مسکراتابھی ہے یہ ساری انتہائی واضح نشانیاں ہیں کہ ا س نوجوان میں مایوسی کازہر تیزی سے سرایت کرتاجارہاہے اور اب وہ جلد یا بدیر کوئی انتہائی قدم اٹھانے والاہے مگر بدقسمتی سے اس جانب توجہ کم دی جاتی ہے بسا اوقات والدین بچوں کی امتحانی ناکامی پر کچھ سوچے سمجھے بغیر ہی ٹھیک ٹھا ک بے عزتی کردیتے ہیں حالانکہ ان کو ہمدردی کااظہار کرتے ہوئے اپنے بچے کاحوصلہ بڑھانا اورہمت بندھانی چاہئے مگر عام طور پر ایسا نہیںہوتا اور پھراس گھرمیں ایک المیہ جنم لے لیتاہے ایسے المیوں سے اپنے پیاروں کو بچانے اور ان کوا س ملک کے ناقص تعلیمی اور امتحانی نظام کی نذرہونے سے بچانے کےلئے والدین کو پہلے سے خبرداررہنے کی ضرورت ہے ۔