ہائر ایجوکیشن کمیشن نے 24 ارب روپے کے بجٹ کا احساس انڈر گریجویٹ سکالر شپ پروگرام کا آن لائن پورٹل کھول دیا ہے۔ملک بھر میں 125سرکاری یونیورسٹیوں کے طلبا سکالر شپ پروگرام کے لیے درخواست دے سکتے ہیں ۔ایچ ای سی حکام کے مطابق 45 ہزار روپے سے کم فیملی انکم والے طالب علم احساس سکالر شپ کے حق دار قرار دیئے گئے ہیں ایچ ای سی کے اجلاس کو بتایا گیا کہ احساس انڈر گریجویٹ سکالر شپ پروگرام کے ذریعے ہر سال کم آمدنی والے گھرانوں کے 50 ہزار طلبا کو وظائف دیے جائیں گے۔ اس 4 سالہ پروگرام سے 2 لاکھ طلبا مستفید ہوں گے، سکالر شپ میں 100فیصد ٹیوشن فیس اور 4 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ شامل ہے 24 ارب روپے کے بجٹ کے اس پروگرام کا دائرہ کار چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی پبلک سیکٹرز جامعات تک پھیلایا گیا ہے۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ دور درازعلاقوں میں وائی فائی اور انٹرنیٹ کی سہولت میسرنہیں ہے۔ان علاقوں کے طلبا کو اس پروگرام میں شامل کرنے کےلئے مقامی اخبارات میں اشتہارات دئیے جائیں گے احساس انڈر گریجویٹ سکالرشپ پروگرام کم آمدنی والے ، متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبا اور والدین کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں، والدین اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے ہیں لیکن تعلیمی اداروں کی بھاری فیسوں کی وجہ سے ہرسال ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں طلبا یونیورسٹیوں میں داخلے لینے سے محروم ہیں سرکاری یونیورسٹیاں گذشتہ چند سالوں سے مالی بحران سے دوچار ہیں انہوں نے ٹیوشن فیس میں اضافے کے ساتھ سیلف فنانس سکیم بھی شروع کر رکھی ہے۔ جن کی فی سمسٹر فیس پچاس ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک ہے مہنگائی اور بے روزگاری کے موجودہ دور میں والدین کے لئے دو تین بچوں کو تعلیم دلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ فیسوں کے حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ بچوں کے ساتھ سختی سے پیش آتی ہے۔ بروقت فیس جمع نہ کرنے پر طلبا کو امتحان میں بیٹھنے نہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے نہ صرف ان کا تعلیمی سال ضائع ہوتا ہے بلکہ ان کے مجموعی نتائج پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔گذشتہ دو سالوں کے اندر پشاور کی پانچ سرکاری جامعات میں زیر تعلیم درجنوں غریب طلبا فیس جمع نہ کرنے کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہائرایجوکیشن کمیشن نے ان کی گرانٹ میں کٹوتی کی ہے جس کی وجہ سے ان کے لئے ملازمین کو تنخواہیں دینا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے یونیورسٹیاں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی بھی نادہندہ ہوچکی ہیں۔ایچ ای سی کی گرانٹ، طلبا کی ٹیوشن فیس اور سیلف فنانس سکیم سے یونیورسٹیاں کروڑوں روپے ماہانہ کماتی ہیں اس کے باوجود ان کا بجٹ خسارے میں رہنا حیران کن ہے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور یونیورسٹی انتظامیہ کو اپنے انتظامی ڈھانچے کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہئے کہ کہیں قوم کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کےلئے قومی خزانے اور لوگوں کی جیبوں سے نکال کر جو رقم جمع کی جاتی ہے وہ کہیں کرپشن کی نذر تو نہیں ہوتی۔کہیں یونیورسٹیوں میںبھی پی آئی اے ، ریلوے اور دیگر سرکاری اداروں کی طرح ضرورت سے زیادہ ملازمین تو نہیں رکھے گئے یونیورسٹیوں کی اپنی جائیدادوں کے کرائے مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہیں یا یہاں بھی سرکاری مال کی بندر بانٹ ہوتی ہے۔کیونکہ حکومتی اداروں کے خسارے میں جانے کی بڑی وجہ مالی بدانتظامی ہے جہاں اس حوالے سے خصوصی مانیٹرنگ کی ضرورت ہے تاکہ اداروں کو خسارے سے نکالا جائے اور وہاں پر معاملات یکسو ہو جائیں‘مالی بحران کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں تحقیق کا کام بھی تعطل کا شکار ہے۔ اور تحقیق کے بغیر ڈگریوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ انڈر گریجویٹ سکالر شپ پروگرام کے ساتھ اگر حکومت سرکاری یونیورسٹیوں کو خسارے سے نکلنے کے لئے ون ٹائم بیل آﺅٹ پیکج بھی دے دے تو اعلیٰ تعلیم کے ادارے بحران سے نکل سکتے ہیں اس سے نہ صرف تعلیم کا معیار بہتر ہوگا بلکہ ٹیوشن فیسوں میں کمی کرکے والدین کوبھی ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ چوبیس ارب روپے کے فنڈ سے حکومت نے انڈر گریجویٹ سکالر شپ کا جو پروگرام شروع کیا ہے اس سے یونیورسٹیوں کو فیسوں کی صورت میں بھی ماہانہ لاکھوں کی آمدنی حاصل ہوگی اور بھاری تعلیمی اخراجات کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنے والے نادار اور ذہین طلبا و طالبات کےلئے حصول علم کے دروازے کھلیں گے جس کا مجموعی طور پر پوری قوم کو فائدہ ہوگا۔