سٹیٹ بینک نے رعایتی سکیم کے تحت اپریل سے ستمبر2020تک 16 لاکھ، 13 ہزار، 164 ملازمین کے روزگار کو تحفظ فراہم کرنے کا انکشاف کیا ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات اور بے روزگاری روکنے کےلئے یہ سکیم متعارف کرائی گئی تھی۔ سکیم کے تحت کاروباری اداروں کو مستقل، کنٹریکٹ اور دیہاڑی دار سمیت ہر قسم کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کےلئے سستے قرضے حاصل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی۔ سکیم کے تحت ملازمین کو برطرف نہ کرنے والے اداروں کے ملازمین کی تین ماہ کی تنخواہوں کےلئے 5 فیصد شرح سود پر قرض حاصل کرنے سہولت دی گئی تھی۔ فعال ٹیکس گزاروں کی فہرست میں شامل اداروں کو 4 فیصد کی شرح پر قرضہ لینے کی سہولت فراہم کی گئی ۔دواکتوبر2020ءتک اس سکیم کے تحت 3457 کاروباری اداروں اور کمپنیوں نے 18 لاکھ، 88 ہزار، 808 ملازمین کے روزگار کے تحفظ کیلئے 2 کھرب، 68 ارب، 10 کروڑ روپے سے زائد کے قرضہ کیلئے درخواستیں دائر کیں۔ سٹیٹ بینک نے چھان بین کے بعد ان میں سے 2760 اداروں اور کمپنیوں کی جانب سے دو کھرب، 21 ارب 55 کروڑ، 700 لاکھ روپے تک کے قرضہ درخواستوں کی منظوری دی اور یوں16 لاکھ، 13 ہزار، 164 ملازمین کے روزگار کو تحفظ فراہم کیا گیا۔پاکستان کے مرکزی بینک کی طرف سے جاری کئے گئے اعدادوشمار پر شک و شبے کی گنجائش اس لئے نہیں کہ انہی کے چھاپے گئے نوٹ ہم اپنے دل سے لگا کر رکھتے ہیں انہی کرارے نوٹوں سے ہمارا روزگار، کاروبار اور دال روٹی چل رہی ہے۔ تاہم جن اداروں اور کمپنیوں نے ملازمین کو بے روزگار نہ کرنے کی شرط پر اتنی بھاری رقم معمولی شرح سود پر حاصل کی ہے ان کی طرف سے بھی وضاحت آنی چاہئے تھی کہ انہوں نے غریبوں کے نام پر جو قرضہ لیا تھا وہ غریبوں کو تنخواہ دینے پر خرچ کیا گیا۔ ہمارے ہاں غریب کے نام پر اب تک مختلف جائز اور ناجائز دھندے چل رہے ہیں۔ کرنسی ، منشیات، نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اورغیر ملکی سامان سمگل کرنے والے بھی اپنے کاروبار کے جائز ہونے کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ اس کاروبار سے ہزاروں غریب مزدوروں کا روزگار وابستہ ہے۔ اگر یہ کاروبار بند ہوگیا تو ان مزدوروں کے گھروں کے چولہے بھی ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔ہمارے حکمرانوں نے بھی ملک کے غریب عوام کو صاف پانی، بجلی، گیس، تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے وعدے پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے اربوں کھربوں ڈالر کے قرضے لئے تھے۔قرضوں کی وہ رقم کہاں خرچ کی گئی اس بارے میں ہمارے سیاست دان قوم کو تفصیلات بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ شاید یہ بھی قومی مفاد کا تقاضا ہو۔ تاہم انہوں نے اپنے حصے کا کمیشن وصول کرکے بیرون ملک اربوں ڈالر کی جائیدادیں بنائیںان کا موقف ہے کہ وہ بھی اس ملک کے باشندے ہیں اگر انہیں بیرونی قرضوں سے کچھ فائدہ ملا ہے تو اس میں کیاحرج ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ روزگار، پانی، بجلی، گیس اور دیگر ضروریات زندگی سے محروم عوام کو وہ قرضے سود سمیت ادا کرنے پڑرہے ہیں۔اگر مرکزی بینک وسیع تر قومی مفاد میں غریبوں کے روزگار کے نام پر کھربوں روپے کا رعایتی قرضہ لینے والے اداروں کے نام بھی عوام کو بتادے تو اس میں کروڑوں غریبوں کا بھلا ہوگا۔جن اداروں نے بھاری بھر کم رعایتی قرضہ وصول کرنے کے باوجودمالی بحران کے نام پر ملازمین کی ڈاﺅن سائزنگ کی۔ان سے باز پرس تو کی جاسکتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کورونا وائرس پھیلنے کے بعد مالی بحران کا بہانہ بناکر مختلف اداروں سے تقریباً پچاس لاکھ افراد کو بے روزگار کردیا گیا۔ان میں ملٹی نیشنل ، نیشنل، صوبائی اور شہر کی سطح پر قائم ادارے، کمپنیاں ، تجارتی اور کاروباری مراکز شامل ہیںجنہوں نے خود تو آسان شرائط پرقرضوں کی بہتی گنگا میں نہ صرف ہاتھ دھوئے بلکہ اس میں نہاتے اور غوطے مارتے رہے اور جن کے نام پر قرضہ لیا تھا انہیں ڈبکیاں دے دے کر مارتے رہے۔توقع ہے کہ وزارت خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک قومی مفاد میں ان نام نہاد غریب پرور طبقے کو بے نقاب کریں گے۔