ففتھ جنریشن وار یا پانچویں پیڑی کی جنگ کیا ہے اور اس اصلاح کی ابتداءکہاں سے، کب اور کس نے دریافت کی؟ اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا اورکہا جا چکا ہے، لہٰذااس کی تفصیل میں جانے کی بجائے اصل مدعا کی طرف بڑھتے ہیں۔ گزشتہ روز آرمی چیف نے کاکول ایبٹ آباد میں ایک پاسنگ آﺅٹ پریڈ سے خطاب کیا جس میںانہوں نے پاکستان کی موجودہ سیاسی ، سفارتی اور معاشی صورتحال کو ففتھ جنریشن وار سے جوڑتے ہوئے مستقبل کی پیش بندی کو واضح کیا۔آرمی چیف نے بجا طور پر مﺅقف اپنایا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت چکا ہے جس کی وجہ سے ملک دشمنوں میں بے چینی اور مایوسی پائی جا رہی جس کے ردِ عمل کے طور پر پاکستان پر اس وقت ہائبرڈ ، اور ففتھ جنریشن وار مسلط کردی گئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے حکومت کے ساتھ کھڑا ہونے کے مﺅقف کو دہرایا اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ کسی کو بھی ملک میں انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی تمام تر کاوشیں ضائع ہوجائیں گی اگر پاکستان کی معاشی خود مختاری کو مستحکم نہ بنایا گیا۔پاکستانی فوج کے سپہ سالار کی جانب سے ملکی معیشت پر تسلسل کے ساتھ بات کرنے سے ایک چیز واضح ہوئی کہ ملکی سلامتی کے ادارے بخوبی واقف ہےں کہ پاکستان کی اصل بقاءمضبوط معیشت میں ہے ۔ایک وقت تھا کہ جب کسی بھی ملک کی حیثیت کو اس کی دفاعی قوت سے ہی پرکھا جا تا تھا،جس کے پاس جتنی بڑی فوج، اور جتنے زیادہ جدید ہتھیارہوتے تھے اُس ملک کو اتنا ہی مضبوط تصور کیا جاتا تھا، لیکن گزشتہ دو سے تین دہائیوں میں دنیا کے حالات اس قدر تبدیل ہوچکے ہیں کہ کسی بھی ملک کی حقیقی بقاءاور خوشحالی مضبوط معیشت اورکرپشن سے پاک نظام کے بغیر ممکن نہیں۔ اس حقیقت کی پہلی جھلک سابق سویت یونین اور موجودہ روس کے افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے دوران دیکھنے کو ملی، اُس وقت سویت یونین کے پاس بہت بڑی فوج بھی تھی اور جدید ہتھیار بھی تھے لیکن ان کی معیشت نہ تو ایک حد سے زیادہ مضبوط تھی اور نہ ہی مستحکم تھی، افغانستان میں ان کی شکست کے جہاں دیگر کئی عوامل تھے وہاں ایک بہت بڑا عنصر کا معاشی طور پرغیر مستحکم ہونا بھی تھا، سویت یونین کو نہ صرف افغانستان میں شکست ہوئی بلکہ اس کی کئی ریاستیں اُس سے الگ ہوگئیں اور سویت یونین بکھر کر روس بن گیا۔ آج کے جدید دور میں کسی بھی ملک کی حیثیت کو پوری دنیا میں اُس کی معاشی کار کردگی پر دیکھا اور پرکھا جاتا ہے، کسی ملک کی جغرافیائی سرحدیں کتنی ہی پھیلی ہوئی کیوں نہ ہوں لیکن اگر وہ ملک معاشی طور پر خودمختار نہ ہو تو آج کی دنیا میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔اس کے برعکس اگر کسی ملک کی جغرافیائی سرحدیں کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہوں اور اس کا دفاعی نظام کتنا ہی محدود کیوں نہ لیکن اگر اس کی معیشت مستحکم ہے تو آج کی دنیا میں وہ ملک نہ صرف سر اُٹھا کر جیتا ہے بلکہ دنیا معاملات میں اپنا حصہ اور شراکت داری بھی ڈالتا ہے، اس حوالے سے ایک مثال سنگاپور کی بھی دی جاسکتی ہے۔اگست 1965میں ملائشیا سے آزادی لینے والے ملک کا رقبہ 725مربع کلومیٹر ہے، آزادی کے بعد اس ملک کو ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، غربت، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے سنگین مسائل نے پورے ملک کو جکڑا ہوا تھا، لیکن تھوڑے ہی عرصے میں اس ملک نے وہ حیران کُن ترقی کر لی جس کی بہت ہی کم مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔سنگاپور پور نے کرپشن فری نظام رائج کیا جس کی وجہ سے اسے زبردست کامیابی ملی، آج سنگاپور کا شمار دنیا کی طاقتورمستحکم معاشی ممالک میں ہوتا ہے۔معاشی ترقی کی دوڑ میں سنگا پور نے اپنے سے کئی گنا بڑے ملک ملائشیا کو بھی کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔پوری دنیا میں نہ صرف اس کی بات سنی جاتی ہے بلکہ اسے عزت کی نظر سے بھی دیکھتی ہے۔ کسی بھی ملک میں جتنی کم کرپشن، اُتنی ہی اُس ملک کی مضبوط اور مستحکم معیشت ، اور جتنی مضبوط اور مستحکم معیشت اُتنی ہی حقیقی خومختاری۔ اس کے برعکس کسی ملک کا جتنا کرپٹ نظام وہاں اُتنا ہی معاشی عدم استحکام، اور جتنا زیادہ معاشی عدم استحکام اُتنی ہی محدود خودمختاری، ، اور ایسے ممالک ہی ففتھ جنریشن وار کا نہ صرف نشانہ ہوتے ہیں بلکہ اس میں تب تک انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب تک اپنے اندر معاشی طور پر ایک صاف اور شفاف نظام رائج نہیں کر لیتے۔