گمشدہ باب

پشاور شہر کے جنوب مشرق میں واقع ’چوھا گجر‘ نامی گاو¿ں آمدورفت کا قدیمی راستہ (پرانے جی ٹی روڈ پر) ایک پُل (290فٹ لمبائی‘ 33 فٹ چوڑائی) سے ہو کر گزرتا ہے۔ پل چھوٹے بڑے 26 ستونوں پر کھڑی ہے جبکہ اِس کے نیچے آبی گزرگاہ کے لئے 12 محرابی دروازے ہیں۔ پل پر 8 فٹ اونچے 13 ستون میناروں کی صورت آسمان سے باتیں کر رہے ہیں جن پر امن و محبت اور پھولوں کے شہر کی نشانی و بیان کے طور پر پھولوں کے مجسموں سے گلکاری کی گئی ہے۔ تاریخی و نصابی کتب میں اِس پُل کا تذکرہ مختلف ناموں سے ملتا ہے جیسا کہ ”سفید پل“ کیونکہ اِس کی تعمیر میں سفید چونے کا استعمال ہوا تھا۔ پل کے ایک ستون پر سنگ مرمر پر کنندہ تازہ ترین اضافہ وہ تاریخی حوالہ ہے جس کے مطابق .... ”یہ پل سب سے پہلے شیرشاہ سوری کے زمانے میں پشاور کو کلکتہ سے ملانے کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔ مغلیہ دور میں اِسے ”مغل پُل“ کا نام دیا گیا جبکہ اِس کے اردگرد پانی کے ذخیرے کی وجہ سے اِسے ”چوھا“ کہا گیا۔ چوھا کا مطلب چھوٹا کنواں یا تالاب کے ہوتے ہیں۔ اُس وقت تعمیرات وزیری اینٹ‘ چونے اور پٹ سن سے کی جاتی تھیں اور یہ پُل اِس کا بہترین نمونہ ہے جسے بہت قریب سے دیکھا جا سکتا ہے۔ پُل کی تعمیرنو پشاور کے معروف سیٹھی خاندان کے سپوت حاجی کریم بخش نے کروائی تھی جس کے بعد اِسے ’سیٹھیان پُل‘ کہا گیا اور دریائے باڑہ کا پانی جو کبھی اہل پشاور پینے کے لئے استعمال کرتے تھے“ لیکن پشاور کو میسر ’دریائے باڑہ‘ کے زود ہضم پانی کی سہولت بھی باقی نہ رہی۔ ایک وقت میں پُل کے اطراف میں پانچ فٹ اونچی حفاظتی دیوار بھی ہوا کرتی تھی جو کم و بیش ایک فٹ ہی باقی رہ گئی ہے جبکہ بار بار سڑک کی ’بے ہنگم تعمیر‘ سے پُل کا درمیانی حصہ اِس حد تک بلند ہو گیا ہے کہ یہ ڈھلوان لگتا ہے۔ پل کی حفاظتی دیوار جو کبھی بلند ہوتی تھی اُسے مناسب بلند کرنے اور پُل پر موجود ملبے کا بوجھ کم کرنے سے اِس کی عمر میں اضافہ ممکن ہے۔ ضرورت اِس بات کی بھی ہے کہ اِسلامی فن تعمیر کے اِس نادر شاہکار اور مغلیہ عہد میں ہوئے تعمیراتی اضافے کی تاریخی‘ ثقافتی اور تعمیراتی حیثیت مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کئے جائیں۔ احیائے پشاور کے فیصلہ سازوں کی خلوص نیت شک و شبے سے بالاتر ہے لیکن دست بستہ عرض ہے کہ جناب یہ معاملہ اور معمہ کسی ایک پُل‘ سڑک یا علاقے کی تاریخی حیثیت کو تسلیم کرنے یا مسلسل انکار پر مبنی ”روئیوں کی تبدیلی“ کا نہیں بلکہ یہ کہانی تاریخ پشاور کے ایک ”معلوم لیکن گمشدہ باب“ سے متعلق ہے! اہل پشاور کی قدیمی ہندکو زبان بولنے والوں کی اکثریت والے علاقے میں ایک پُل کے قریب گھنے درخت اور ایک مزار منسوب اَز حضرت سخی بہادر خان باباؒ (تکیہ زیارت)“ بھی توجہ طلب ہیں‘ جنہیں احیائے پشاور کی کوششوں میں شامل کرتے ہوئے اِس مقام کی سیر کو چار چاند لگائے جا سکتے ہیں یعنی سیاحت کا لطف دوبالا ہو سکتا ہے۔ پُل اور اِس کے اطراف میں مختلف سیاسی جماعتوں اور کاروباری اداروں کی ’وال چاکنگ‘ اور عرصہ دراز سے اُن کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے شکستگی کے آثار اپنی جانب متوجہ کر رہے ہیں لیکن اِس تمام خستہ حالی کے باوجود بھی یہ پُل اُس وقت کے خاص فن تعمیر اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہونے کے علاوہ ’تاریخ پشاور‘ کے اِس باب کے ذریعے نئی نسل کو ’پشاور شناسی‘ گھول کر پلائی جا سکتی ہے۔ چوھا گجر پل کی خاص اور تاریخی اہمیت یہ ہے کہ اِس کی تعمیر وسط ایشیائی ریاستوں سے تجارتی راہداری پر کی گئی تھی اور اُس وقت میں یہی راستہ افغانستان کے راستے آنے والے تجارتی و دیگر قافلوں کا انتخاب ہوتا تھا اور اِسے عسکری (فوجی) مقاصد کے لئے ہونے والی آمدورفت اور نقل و حمل کے لئے بھی استعمال کیا جاتا تھا‘ جس کے باعث یہاں ایک وقت میں ہونے والی سرگرمیوں (رش) کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔ اِس مصروف راہداری کے آس پاس دیہات کے آباد ہونے کا سلسلہ بھی اِسی وجہ سے شروع ہوا لیکن چوھا گجر ایک ایسا مقام ہے جہاں وقت کی نبضیں رُکی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ اِس گاو¿ں اور اِس گاو¿ں کے مشہور مذکورہ پُل نے وقت کے ساتھ ترقی نہیں کی اور نہ ہی اِس کی قدرشناسی کی جاسکی جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پشاور کے سیاسی و ثقافتی اور آثار قدیمہ سے جڑے اثاثوں میں اہل پشاور کی اپنی دلچسپی کم رہی ‘احیائے پشاور“ کے نام سے صوبائی دارالحکومت کی بحالی اور ترقیاتی امور سے متعلق حکمت عملی المعروف ”ریوائیل پلان“ کے تحت ”چوھا گجر پل“ کو قومی اثاثہ (National Heritage Site) قرار دیا گیا ہے‘ جس کے بعد اُمید ہے کہ اِس پل کے خستہ حال حصوں کی تعمیرومرمت ہو گی۔ اِس کے نیچے اور اطراف میں موجود کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) کے انبار ہٹائے جائیں گے۔ پل سے ملحقہ یا کسی قریبی مقام پر سیاحوں کے قیام و طعام کا مرکز بنایا جائے گا اور صرف پل ہی نہیں بلکہ پشاور سے چند منٹ کے فاصلے پر چوہا گجر گاو¿ں کی دیہی زندگی اور وہاں پائے جانے والے تعمیراتی نمونوں کو اسلام آباد کے قریب ’سید پور گاو¿ں‘ کی طرح محفوظ بناتے ہوئے پشاور کے سیاحتی نقشے میں نئے مقامات کا اضافہ کیا جائے گا۔ اُمید یہ بھی ہے کہ ’احیائے پشاور‘ کے نام پر صرف کاغذی کاروائیوں اور اخباری بیانات پر مبنی نمائش پر ہی اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ آثارِ قدیمہ کے ساتھ جدید تعمیرات اور اُس مرکزی کردار ’اِنسانوں (مقامی لوگوں)‘ کو بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی عملاً ممکن بنائی جائے گی جو شہر کے قریب رہتے ہوئے بھی شہری زندگی کی سہولیات سے محروم ہیں اور پشاور شہر کی جانب حسرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جبکہ اندرون شہر رہنے والوں کی حسرت و مایوسی بھی دیدنی ہے! احیائے پشاور کے تحت پشاور کی محرومیوں کا ازالہ کیوں نہیں ہونا چاہئے؟