پاک فوج اور قبائلی عوام کی لازوال قربانیوں کی بدولت تمام قبائلی علاقے دہشت گردی سے پاک ہوچکے ہیں وہاں امن کے قیام کے ساتھ زندگی کی معمولات بھی بحال ہوچکی ہیں، دہشت گردی کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر ملک کے مختلف علاقوں میں پناہ لینے والے قبائلی بھی اپنے گھروں کو واپس جارہے ہیں قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد پچاس لاکھ قبائلی عوام بھی قومی سیاسی دھارے میں شامل ہوچکے ہیں۔ صوبائی حکومت اور پاک فوج نے دہشت گردوں کے ہاتھوں تباہ ہونے والے سکولوں کی بحالی اور طبی سہولیات کی فراہمی شروع کردی ہے تمام قبائلی اضلاع میں لوگوں کو سرکاری ہسپتالوں اور فری میڈیکل کیمپوں کے ذریعے مفت طبی سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہیں ۔قیام امن اور انضمام سے پہلے قبائلی علاقوں میں تعلیم اور صحت کے اداروں کی حالت ناگفتہ بہہ تھی۔ تین سال قبل اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی ادارہ صحت نے قبائلی علاقوں میں صحت کے شعبے سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی تھی‘ڈبلیو ایچ او کی 2017میں تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے سات قبائلی ایجنسیوں خیبر‘ مہمند‘ باجوڑ‘ اورکزئی‘ کرم‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان علاوہ چھ سابق ایف آرز میں مجموعی طور پر 996صحت مراکز قائم ہیں جن میں ایجنسی ہیڈکوارٹر(موجودہ ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر) ہسپتال، بنیادی صحت مراکز، دیہی صحت مراکز، ڈسپنسریاںاور تولیدی مراکز شامل ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کی ٹیم نے ان میں سے 851صحت مراکز کا دورہ کرکے ان میں موجود صحت سہولیات کا جائزہ لینے کے بعد جو رپورٹ تیار کی ہے اس کے مطابق ضم اضلاع سے تعلق رکھنے والی 25 فیصد خواتین زچگی کے لئے صحت مراکز سے رابطے نہیں کرتیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگواتی ہیں‘300صحت مراکز مخدوش عمارتوں میں قائم ہیں46صحت مراکز کرائے کی عمارتوں میں بنائے گئے ہیںمہمند‘ اورکزئی ‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے صحت مراکزطبی سہولیات غیر تسلی بخش ہیں۔75فیصد بنیادی صحت مراکز میں مرد اور خواتین میڈیکل آفیسرز موجود ہیں 72 فیصد مراکز میں فارمیسی، 14فیصد میں لیبارٹری ٹیکنیشن‘69فیصد میں لیڈی ہیلتھ وزیٹرز اور 39 فیصد مراکز میں ای پی آئی کا عملہ موجود تھا۔ دیہی صحت مراکز میں سے 53فیصد میں میڈیکل آفیسرز‘7فیصد میں نرسنگ سٹاف‘ 30فیصد میں ایل ایچ ویز اور 77فیصد میں اردلی موجود تھے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں 29فیصد میں فیزیشن‘36فیصد ڈینٹل سرجن‘ 29فیصد ماہر امراض چشم‘43فیصد ریڈیالوجسٹ‘71فیصد جنرل سرجن‘36فیصد گائناکالوجسٹ‘21 فیصد میڈیکل آفیسر موجود ہیں۔بیشتر ضم اضلاع کے بڑے ہسپتالوں میں سٹاف کی کمی کے باعث مریضوں کو پشاور کے ہسپتالوں کو ریفر کیاجاتا ہے ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق قبائلی اضلاع کے 40فیصد دیہی صحت مراکز، 57فیصد تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں اور 39فیصد ڈسپنسریوں میں لیبارٹری ٹیسٹوں کی سہولت موجود ہے۔ 62فیصد بی ایچ یوز اور 80فیصد دیہی صحت مراکز میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی سہولت دستیاب ہے لیبارٹری ٹیسٹوں ، ادویات اور ایمونائزیشن کی سہولیات کے حوالے سے بھی مہمند‘ خیبر‘ شمالی و جنوبی وزیرستان‘ ایف آر ٹانک اور ایف آر ڈی آئی خان کافی پسماندہ ہیں۔پچاس فیصد سے زائد صحت مراکز میں ریفریجریٹرز اور طبی آلات کو سٹریلائز کرنے کی سہولت دستیاب نہیں،ڈبلیو ایچ او نے اپنی رپورٹ میں حکومت سے سفارش کی تھی کہ قبائلی علاقوں میں صحت سہولیات کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرکے سٹاف کی کمی پوری کرنے‘ ادویات ، طبی سامان کی فراہمی اور انفراسٹرکچر کی بحالی کے لئے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے فنی اور مالی مدد بھی لی جاسکتی ہے حکومت نے دور دراز‘غیر پرکشش اور پہاڑی علاقوں میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹروں، نرسوںاور پیرامیڈیکل سٹاف کےلئے پرکشش تنخواہوں اور دیگر مراعات کی پیش کش کی ہے تاکہ ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر دیہی علاقوں میں جاکر عوام کی خدمت کریں۔اے ایچ کیوہسپتالوں کو جدید سہولیات سے آراستہ ڈی ایچ کیو اے کٹیگری ہسپتالوں کا درجہ دیا گیا ہے۔ قبائلی علاقوں کی ضلعی ہیڈ کوارٹر اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کو لیبارٹری ٹیسٹوں‘ایکسرے‘ الٹراساﺅنڈ‘ ای سی جی، سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کی سہولیات سے لیس کیاجارہا ہے جس سے نہ صرف قبائلی علاقوں کے عوام کو اپنے گھروں کے قریب صحت کی بہتر سہولیات میسر آئیں گی بلکہ شہری علاقوں کے ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ بھی کم ہوگا اور ان کی کارکردگی بھی بہتر ہوجائے گی۔