ہمارے ہاں ہر دور میں مسائل کے حل کےلئے غیر حقیقت پسندانہ حکمت عملی اختیار کی جاتی رہی ہے یہی وجہ ہے کہ نہ صرف پالیسیاں ناکام ہوتی ہیں وقت اورسرمائے کاضیاع ہوتا ہے بلکہ لوگوں کی مایوسی میں بھی اضافہ ہوتاہے ہم نے شعبہ صحت کے ساتھ بھی ہر دور میں یہی رویہ اختیارکیے رکھا جب بھی اصلاحات کی بات ہوئی توپشاورکے تین بڑے ہسپتالوں کوہی تختہ مشق بنایا گیا ایم ایم اے دور ہویا اے این پی کی حکومت ہو یاپھرپی ٹی آئی کی سابق اورموجودہ صوبائی حکومت ہو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی کوشش کسی نے بھی نہیں کی اصل مسئلہ اصلاحات سے زیادہ ضلعی اورتحصیل ہسپتالوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی ممکن بناناہے تاکہ وہا ں سے کسی کو بھی پشاور آنے کی ضرورت ہی نہ پڑے وہاں سے مسلسل مریض پشاورریفر کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے پشاور کے بڑے ہسپتالوں کو مشکل حالات کاسامناکرنا پڑتاہے اور حکومت کے حصہ میں صرف بدنامی آتی ہے اب گذشتہ دنوں محکمہ صحت پشاور کے ہسپتالوں کو دیگر اضلاع خصوصاً پہاڑی اضلاع سے مریضوں کے ریفر کرنے کے سلسلے کو ختم کرنے کےلئے صوبہ بھر کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی شعبہ جدید خطوط پر استوار کرنے کے منصوبے کے آغاز پر پشاور کے قریبی ہسپتالوں کی ایمرجنسی کو اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے جیسا کہ بتایاگیاکہ طویل عرصہ سے دور دراز کے اضلاع سے مریضوں کو پشاور ریفر کردیا جاتا ہے تشویش کی بات یہ ہے کہ جن مریضوں کا علاج مقامی طور پر ہوسکتا ہے انہیں بھی پشاور روانہ کیا جاتا ہے جن میں سے اکثر مریض راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں اب صوبائی حکومت نے فیصلہ کیاہے کہ پورے صوبے کے ڈسٹرکٹ اور تحصیل ہسپتالوں میں ایمرجنسی شعبہ یا شعبہ حادثات کو جدید بنایا جائے گا جن میں ہرطرح کی سہولیات دستیاب ہوں گی جو مریض کی جان بچانے کے لئے ضروری ہو ں اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں پشاور کے قریبی علاقوں کے ہسپتالوں کی شعبہ ایمرجنسی کو اپ گریڈ کیا جائے گا پشاور کے مولوی جی اور نصیر اللہ بابر ہسپتال کے شعبہ حادثات کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا دوسرے مرحلے میں چارسدہ ، ضلع خیبر ، نوشہرہ ، پبی ، اور جہانگیرہ کے ہسپتال اور مردان و صوابی کے ہسپتالوں میں مزید شعبہ حادثات قائم کئے جائیں گے تاکہ پشاور کو ریفر کرنے کا سلسلہ ختم ہوجائے جس سے نہ صرف پشاور کے ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ کم ہوگا بلکہ مریضوں کو بھی سہولت ہوگی صوبائی حکومت منصوبے کےلئے نہ صرف فنڈز دینے پر راضی ہے بلکہ محکمہ صحت کو وزیر اعلیٰ کی بھر پور حمایت وتعاون حاصل ہے ہم نے متعدد بار ان ہی کالموں میں لکھا ہے کہ پشاور کے ہسپتالوں پر دیگر اضلاع سے آنے والے مریضوں کا بڑا بوجھ ہے۔ دوردراز اضلاع سے آنے والے مریض اکثر راستے ہی میں مرجاتے ہیں اگر حکومت پسماندہ اضلاع کے ہسپتالوں کو بہتر بنائے بالخصوص شعبہ حادثات کو عصری تقاضوں کے مطابق بنائے تو اس سے وہاں کے مریضوں کو پشاور ریفر نہیں کیا جائے گا۔ جہاں تک پشاور شہر کی توسیع کی بات ہے تواس پر پہلے ہی سے بڑھتی آبادی کا بوجھ ہے یہاں لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین بھی مقیم ہیں جبکہ طورخم سرحد کے ذریعے افغانستان سے بھی مریضوں کی ایک بڑی تعداد یہاں آرہی ہے زیادہ مریضوں کی وجہ سے پشاور کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی مزید گنجائش بالکل نہیں رہی ۔ خوش آئند امریہ ہے کہ بالاخر صوبائی حکومت نے پشاور کے ہسپتالوں پر مریضوں کے رش کم کرنے کا احسن منصوبہ تیار کیا ہے، اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں ضلعی اور تحصیل ہسپتالوں کی شعبہ ایمرجنسی کو اپ گریڈ کیا جائے گا پہلے مرحلہ میں ہشتنگری میں مولوی جی اور کوہاٹ روڈ پر نصیر اللہ بابر ہسپتال کے شعبہ حادثات کو بھی اپ گریڈ کیا جائے گا اس سے لا محالہ پشار کے بڑے ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ کم ہوگا اور ڈاکٹر اور پیرا میڈیکس بھی مریضوں کی مناسب طریقہ سے دیکھ بھال کرسکیں گے۔ اسی طرح صوبائی حکومت دوسرے مرحلہ میں چارسدہ ، ضلع خیبر ، ضلع نوشہرہ کے دو ہسپتالوں جبکہ مردان اور صوابی کے ہسپتالوں میں مزید شعبہ حادثات بنائے گی جبکہ حکومت دیگر اضلاع اور تحصیلوں کے ہسپتالوں کے ایمر جنسی اور شعبہ حادثات کو جدید خطوط پر بنانے کی سوچ رکھتی ہے، ہسپتالوں کی طرح اگر صوبائی حکومت پسماندہ اضلاع کے سکولوں اور کالجوں کو بھی فعال بنائے ان کا معیار بہتر بنانے تو اس سے صوبہ کے بڑے شہروں پر باہر سے آنے والے طلباءوطالبات کی آمد کا سلسلہ کم ہوگا ایسے اقدامات کے ذریعے صوبائی حکومت شعبہ صحت اور شعبہ تعلیم کو وزیر اعظم کے وژن اور عوامی توقعات کے عین مطابق بہتر بنا سکتی ہے‘ اس منصوبے کو مزید بہتر اور موثر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ صوبائی حکومت معیاری ادویات کی فراہمی بھی ممکن بنائے ، جعلی ادویات کا خاتمہ کرے اور ادویات کے نرخوں میں کمی لائے نیز حکومت جعلی لیبارٹریوں کے خلاف بھی موثر کاروائی کرے کیونکہ ان کے خلاف عوامی شکایات اخبارات میں آرہی ہیں اگر حکومت ان سب کو مذکورہ منصوبہ میں شامل کرتی ہے تو اس سے یہ منصوبہ ایک مثالی منصوبہ کہلائے گا۔ اور مریضوں کو پرائیویٹ ہسپتالوں اور لیبارٹریوں میں جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ نیز اس منصوبے کی کامیابی کےلئے یہ بھی ضروری ہے کہ پسماندہ اور دور دراز ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس سٹاف کو ترجیحی بنیادوں پر وہ جملہ مراعات اور سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ یہ وہاں بغیر کسی تردد کے اپنی ڈیوٹی دے سکیں۔ گو اس حوالہ سے ڈاکٹروں وغیرہ کو مراعات و سہولیات دی جاتی ہیں اگر ان میں مزید اضافہ کیا جائے تو پھر ڈاکٹر اور پیرامیڈیکس بخوشی وہاں جانے پر تیار ہوں گے۔