13 اکتوبر کے روز ’دی وائر‘ کی جانب سے میزبان کرن تھاپر نے وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی و اسٹرٹیجک پالیسی پلاننگ معید یوسف سے ’پاک بھارت تعلقات اور متعلقہ موضوعات‘ پر بات چیت کی جس کا نشریاتی دورانیہ ’ایک گھنٹہ سولہ منٹ‘ تھا۔ معید یوسف 24 دسمبر 2019ءسے وزیراعظم کے مشیر خصوصی اور اِس سے قبل ’سٹریٹجک پالیسی پلاننگ سیل‘ کے چیئرمین رہے ہیں وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے انڈین صحافی کرن تھاپر کو منگل کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ انڈیا نے کشمیر پر پاکستان کو مذاکرات کا پیغام بھیجا ہے تاہم انھوں نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں۔معید یوسف نے بذریعہ کرن تاپر ”انکشاف“ کیا ہے کہ بھارت نے کشمیر پر بات چیت کے لئے پاکستان کو پیغام بھیجا ہے‘ جس کی اگرچہ اُنہوں نے تفصیلات بیان نہیں کیں کہ یہ پیغام سفارتی ذرائع سے ملا ہے اور اِس کی مندرجات کیا ہےں لیکن اُنہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کو فریق بنانے سے متعلق جواب کے بعد خاموشی چھائی ہوئی ہے۔پاکستان کو داخلی طور پر عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے بھارت تمام وسائل بروئے کار لا رہا ہے۔ معید یوسف نے ”پاکستان کا مقدمہ (مو¿قف)“ بڑی ہی مہارت سے بھرپور اَنداز میں پیش کیا ہے بالخصوص بھارتی جاسوس ’کلبھوشن یادیو‘ سے متعلق اُنہوں نے بار بار اور گھما پھرا کر پوچھے گئے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان یادیو سے متعلق اپنے فیصلوں میں سفارتی اقدار کی خلاف ورزی نہیں کر رہا ہے اور جب اُن سے یہ سوال کیا گیا کہ پاکستان کلبھوشن کو اپنی مرضی کے بھارتی وکیل کی خدمات لینے کی اجازت کیوں نہیں دے رہا تو اِس پر اُن کا جواب تھا کہ پاکستان میں ایسا کوئی بھی قانون موجود نہیں‘ جو کسی بھارتی وکیل کو پاکستانی عدالت میں اپنا مقدمہ لڑنے کی اجازت دیتا ہو۔ ذہن نشین رہے کہ سترہ جولائی کو عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ مبینہ جاسوس کی سزائے موت پر نظر ثانی کرے اور قونصلر رسائی دے۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو قونصلر تک رسائی نہ دے کر ویانا کنونشن کی شق چھتیسویں کی خلاف ورزی کی ہے۔ فوجی عدالت نے اپریل دوہزارسترہ میں کلبھوشن یادیو کو جاسوسی‘ تخریب کاری اور دہشت گردی کے الزامات میں موت کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف بھارت نے مئی دوہزارسترہ میں عالمی عدالت انصاف کا دورازہ کھٹکھٹایا تھا اور استدعا کی تھی کہ کلبھوشن کی سزا معطل کر کے اُسے رہائی دی جائے۔عالمی عدالت نے بھارت کی اِس اپیل کو مسترد کر دیا تھا تاہم پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ ملزم کو قونصلر تک رسائی دے اور ان کی سزائے موت پر نظرِ ثانی کرے۔کلبھوشن بھارتی بحریہ کے حاضر سروس اِہلکار ہیں جنہیں دوہزارسولہ میں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت اَفغانستان اور اِیران کے راستے ’بلوچ علیحدگی پسند‘ عناصر کی پشت پناہی کر رہا ہے‘ جن میں سے بہت سارے منصوبوں کا اعتراف کلبھوشن یادیو کر چکا ہے۔جنگ بندی ضروری ہے! کشمیر لائن آف کنٹرول سے لیکر دہشت گردانہ کاروائیوں تک پاک بھارت کے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہئے۔ قومی مشیر برائے سلامتی کی بات چیت کا بنیادی نکتہ اور ’ایک گھنٹہ سولہ منٹ‘ سے زائد جاری رہی بات چیت کا حاصل یہ ہے کہ ”پاکستان دہشت گردی سمیت ہر مسئلے پر بھارت سے بات چیت کرنے کے لئے تیار ہے۔“ لیکن کیا بھارت پاکستان کے خلاف ’کاروائیوں‘ سے باز آئے گا؟‘ بہرحال معید یوسف نے پاک بھارت تعلقات کے بارے میں جو کچھ بھی کہا اُس کا ہر لفظ سوچا سمجھا اور نپاتلا تھا جن کی تصدیق اُن چند واقعات کے تسلسل سے بھی ہوتی ہے جو گزشتہ کئی ہفتوں سے رونما ہو رہے ہیں اور معید یوسف کا یہ جملہ انتہائی معنی خیز (لائق توجہ) ہے کہ ....”پاک بھارت کے فیصلہ سازوں کو بڑوں کی طرح بیٹھ کر بات کرنی چاہئے۔ کشمیر اور دہشت گردی 2 مسئلے ہیں‘ انہیں مسئلہ ہی سمجھنا چاہئے ۔“ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور یہ بات صرف ایک مشیر کو نہیں بلکہ ہر مشیر اور وزیر کو دنیا کے سامنے رکھنی چاہئے کہ پاکستان صرف کشمیریوں ہی کے حق خودارادیت اور اخلاقی حمایت نہیں کرتا بلکہ افغانستان سمیت خطے میں قیام اَمن کا خواہاں ہے۔