یہ اور بات ، تیقّن سے بات کرتا ہوں

چاروں اور اب شور بہت بڑھتا چلا جا رہا ہے،ہر شخص اپنے اپنے مفادات کے کھونٹے سے بندھا ہوا دائرے میں گھوم رہا ہے مگراس محدود دائرے سے نکلنے کی کبھی کوشش نہیں کرتا۔ اس لئے خود پسندی اور نر گسیت کا خوگر ہو جاتا ہے۔ کسی تخلیق کار کےلئے یہ خود پسندی کبھی کبھی شاہکار شہ پاروں کی تخلیق کا باعث بن جاتی ہے لیکن کوتاہ نظر لوگوں کیلئے یہی خود پسندی ان کے اندر پنپنے والی خواہشات کو حرص اور لالچ کی سطح تک بڑھا دیتی ہے۔ پھر نہ وہ خود چین سے رہتے ہیں او ر نہ دوسروں کو کھل کر سانس لینے دیتے ہیں، آج کل بھی ملکی سطح پر جو ایک شور سنائی دے رہا ہے اس کے پیچھے بھی یہی لالچ کار فرما ہے کیونکہ یہ شور محض اقتدار کو ”ہتھیانے“ اور ”بچانے“ کیلئے مچا ہوا ہے۔ا س چیخم دھاڑ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔ ابھی اندازہ لگا نا مشکل ہے سارے سیاسی رہنما اپنے اپنے قیاس کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں ،اقتدار بچانے والے گروہ سے جو آوازیں گونج رہی ہیں اتنا ہی یار لو گوں کا گمان یقین میں بدلتا جاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ان کے دل کو نامعلوم کاخوف یا انہونی کا دھڑکا لگا ہوا ہے، دوسری طرف اقتدار ہتھیانے والے گروہ سے بھی جو آوازیں اٹھ رہی ہیں وہ بھی اس طرح کی غیر متوقع صورت حال کی پیش بندی کے حوالے سے ہیں جن میں اقتدار والوں کے عدم تعاون،پانی گدلا کرنے اور ان کے اکٹھ میں کھنڈ ِت ڈالنے کا ذکر ہے، پیش بندی یہ ہے کہ اکٹھ میں عام آدمی کی عدم دلچسپی کو صاحبان اقتدار کی بے جا مداخلت کے کھاتے میں ڈالا جائے۔ گویا دونوں فریقوں کے اپنے اپنے خوف ہیں، جس کی وجہ سے ماحول میں ایک شور سنائی دے رہاہے، گویا خوف اور شور کا تعلق لازم و ملزوم ہے ، کہتے ہیں کہ اندھیرا اور تنہائی ہی ڈر کو جنم دیتے ہیں، اب ان دو فریقوں میں سے کون تنہائی کا شکار ہے اور کون اندھیرے میں گھرا ہوا ہے اس کا جواب تو سیاسی رہنما ہی بخوبی دے سکتے ہیں، میں تو اتنا جانتا ہوں کہ کبھی کبھی روشنی کی چکا چوند بھی اندھیرے کا کردار ادا کرنے لگتی ہے اور پھر دیکھنے والوں کو دیوار کا لکھا تک نظر نہیں آتا اور اسی طرح بھری محفل میں بھی کبھی انسان بہت اکیلا محسوس کرتا ہے ،کسی سیانے نے کہا ہے کہ ” جتنا بڑا شہرہو گا اتنی زیادہ تنہائی ہو گی“ جتنے زیادہ لوگ آپ کے گرد ہوں گے تنہائی بھی اتنی ہی شدید ہو گی۔
 ہجوم یادوں کا اور دل کی رہ گز ر تنہا
 بھرا ہے شہر مگر میں ہوں کس قدر تنہا
 معرف و مقبول لبنانی نژاد امریکی شاعر،ادیب خلیل جبران امریکہ کے گنجان آباد شہر نیویارک میں رہتا تھا اور تنہائی سے تنگ آ کر اپنی محبوبہ کو خط میں لکھتا تھا کہ میری خواہش ہے کہ میں پہلی پرواز سے اڑ کر اپنی دھرتی پہنچ جاو¿ں مگر یہ شہر (نیویارک)میرے لئے ایک ایسا قفس بن گیا ہے جس کی تیلیاں میں نے اپنے ہاتھ سے بنائی ہیں مگر ان کو توڑنا میرے بس میں نہیں۔ اس جبران نے یہ بھی کہا ہے کہ ” چنیدہ اور انعام یافتہ لوگ ہمیشہ تنہا ہوتے ہیں “
 بلندیوں پہ تو تنہائیوں کے ڈر ہوں گے
 یہ سوچنا تھا تو رہنا تھا ا ± س نگر تنہا
 یہی حال اندھیرے سے اور اندھیرے میں ڈر کا بھی ہے ،بچپن میں جب رات کے وقت کسی بچے کو گھر کی چھت پر کسی کام سے بھیجنا مقصود ہو تا اور اسے ڈر لگتا تو کہا جاتا کہ بہ آواز بلند باتیں کرتے ہوئے جاو¿ یا پھر اسے آواز دی جاتی کہ کہاں پہنچے ،یوں وہ گھر والوں کے ساتھ آواز کے ڈوری سے بندھا ہوا جاتا اور واپس آ جاتا۔
گزشتہ کل ایسی ہی آوازیں چینلز پر گونج رہی تھیں جس سے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ یہ مشق نادیدہ خوف سے خود کو بچانے کیلئے کی جا رہی ہے اور یہ خوف اندھیرے کا یا پھر ” اندھیر “ ہے ۔
 اندھیرے گلیوں میں آسیب بن کے پھرتے ہیں
سو اپنے پاو¿ں کی آہٹ سے ڈرنے والا ہوں
اسلامی مہینہ صفر اب اپنے اختتام پر ہے آخری چہار شنبہ گزر چکا ہے جس دن کچھ علاقوں میں چوری بنا کر تقسیم کی جاتی ہے اور کچھ علاقوں میں منت کی کھیر بنائی جاتی ہے مگر وہ تقسیم نہیں ہوتی ،مدعوئین کو ا±س گھر جا کر کھانا ہو تا ہے، پشاور سے کلکتہ تک زیادہ تر شہروں میں آخری چہار شنبہ کو منت کی کھیر ہی بنتی ہے ، لیکن صفر کے مہینے کے ساتھ ایک روایت یہ بھی جڑی ہے کہ اس ماہ کے شروع کے تیرہ دن بھوت پریت اور آسیب گلیوں میں اتر آتے ہیں اور تیرہ دن بعد واپس چلے جاتے ہیں جسے مقامی نام ” تیرہ تیزی“ دیا گیا ہے۔ ان آسیب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نظر نہ بھی آئیں تو ان کے قدموں کی چاپ ضرور سنائی دیتی ہے، یہ بات کہیں بچپن میں سنی تھی اور پھر بھول بھال گیا، مگر کچھ دن قبل جب میں گاو¿ں میں تھا تو ننھے ابتہاج نے مجھ سے پو چھا کہ اب تو سارے آسیب واپس لوٹ گئے نا تومجھے بڑی حیرت ہوئی گاو¿ں میں اب بھی وہی صورت حال ہے جو میرے بچپن کے زمانے میں تھی تب ہمیں بھی یہی کچھ کہہ کر اتنا ڈرایا گیا تھا کہ ایک بار مجھے گلی میں سر شام دور سے سچ مچ کسی آسیب کی ایک جھلک سی نظر بھی آگئی تھی،میں ڈر کے مارے گھر لوٹ آیا تھا اور مجھے پھر دو دن بخار بھی رہا تھا۔ تاہم کسی کو میری بات کا یقین ہی نہیں آیا بلکہ گلی کی ایک خاتون نے کہا کہ آپ نے اسے دیکھا تھا ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو مگر اسے بھی میرے خوف نے آسیب کی شکل دے دی تھی۔ مگر اب نصف صدی میرے بچے اسی خوف کی فضا میں سانس لے رہے ہیں ¾عابد علی سید نے کہا ہے کہ ” زمین پہ اب بھی وہ خوف ہراس ہے کہ جو تھا “ ۔ سوچتا ہوں یہ جو بچوں کو بار بار اندھیرے اور تنہائی سے بچپن سے ڈرایا جاتا ہے،وہی خوف ساتھ ساتھ جوان ہوتا رہتا ہے اور پھر ذات سے کائنات تک پھیل جاتا ہے، اسی طرح اس ڈر اور خوف سے نجات پانے کا جو طریقہ بچپن میں سکھایا گیا وہ بھی ساتھ ساتھ پختہ ہو جاتا ہے اس لئے جب بھی ہمارے آس پاس خوف اور ڈر کے عفریت بھنکارنے لگتے ہیں تو ہماری آوازیں چیخ بن جاتی ہیں تا کہ گرد و پیش کی سنسنا ہٹیں سنائی نہ دیں ،اس لئے یہ جو آج جو ایک شور سنائی دے رہا ہے اس کی نفسیاتی وجہ بھی یہی جانے انجانے خوف ہیں،لیکن چونکہ یہ شور محض اقتدار کوہتھیانے اور بچانے کیلئے مچا ہوا ہے،اس لئے دونوں فریقوں کا لب و لہجہ کتنا بھی پر اعتماد دکھائی کیوں نہ دے ۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کی آوازوں میں نا معلوم کا خوف کنڈلی مارے بیٹھا صاف نظر آ رہا ہے۔
یہ اور بات ، تیقّن سے بات کرتا ہوں
 مرے وجو د میں پرچھائیاں سراب بہت