پاکستان میں رواں مالی سال کے دوران مہنگائی کے کئی ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں ¾غریب عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں کیونکہ ان کو گھر کے اخراجات ‘ بجلی ‘ گیس کے بل ¾بچوں کی فیس اور دیگر ضروریات زندگی پوری کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے بہت سی خبروں کے مطابق بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے لوگ روزمرہ اخراجات کےلئے اپنے اثاثے ‘ فرنیچر اور دیگر اشیاءفروخت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ¾آٹا کے 20 کلو کا تھیلا جو750 اور800 میں فروخت کیا جاتا تھا اس کی قیمت1250 سے زیادہ وصول کی جا رہی ہے ¾ملک کے کئی علاقوں میں یہ تھیلا1500 روپے میں بھی فروخت کیا جا رہا ہے روٹی اور آٹا جو غریب اور مڈل کلاس لوگوں کی سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی سستی ترین غذا ہے اس کی قیمت میں دو گنااضافہ یقینا ناقابل برداشت ہے حکومت کا اب بھی دعویٰ ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز اور سرکاری مراکز پر سرکاری قیمت وہی800 روپے ہے مگر بیشتر سٹورز پر آٹا میسر نہیں وہاں حکومتی اہلکار عام مارکیٹ میں قیمتیں قابو کرنے میں بری طرح ناکام ہیں ‘ چینی جو 56 روپے کلو فراہم ہو رہی تھی دو سال کے اندر اس کی قیمت100 اور110 روپے کلو تک پہنچ گئی ‘عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال پاکستان میں مہنگائی کی شرح11.12 فیصد رہی ہے مگر دیکھا جائے تو کئی اشیاءکی قیمتیں70 اور80 فیصد تک بڑھ گئی ہیں آٹا اور چینی اس کا واضح ثبوت ہیں چاول ‘ دال ‘ لوبیا ‘ آلو ‘ ٹماٹر تمام سبزیاں ‘ تیل ‘ کپڑے ‘ جوتے ادویات ‘ کاریں ‘ جائیداد ‘گھر کی قیمتیں اور کرائے گزشتہ دو سال کے دوران تقریباً دوگنی ہو گئی ہیں خاص کر درآمدات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ سے بھی ہوا ہے 2018ءمیں ڈالر کی قدر110.13 روپے تھی جو 162.76 تک پہنچ گئی ہے ساتھ ہی سونے کی فی تولہ قیمت جو محض دو سال قبل57600 تھی وہ 116167 روپے تک پہنچ گئی ہے ¾بہت سے کاروباری افراد اور دکانداروں نے اپنے طور پر ادویات ‘ غذائی اجناس اور دیگر روزمرہ ضرورت کی اشیاءکی قیمتیں بڑھا دی ہیں اور کوئی اس کا پوچھنے والا نہیں ‘ رواں سال کے دوران مہنگائی کا اگر گزشتہ سالوں کے ساتھ موزانہ کیا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ محکمے غریب اور مڈل کلاس کو ریلیف فراہم کر نے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں ¾پاکستان میں مہنگائی کی اوسط شرح گزشتہ سال6.74 فیصد تھی یہی شرح 2018 ءمیں صرف3.93 فیصد2017ءمیں4.15 فیصد2016ءمیں2.86 فیصد اور 2015ئ4.53 تھی دنیا میں جن ممالک میں حکومت اور محکمے مضبوط ہیں عوام کی خدمات کا جذبہ ہے اور جہاں قوانین پر عملدرآمد اور سزا کا موثر نظام ہے وہاں مہنگائی کی شرح چند سال میں بمشکل3.2 فیصد بڑھتی ہے رواں سال کے دوران بحرین ¾قطر ‘ متحدہ عر ب امارات ‘ پانامہ‘ یونان ‘ ملائیشیا ‘ مالدیپ ‘ عثمان ‘ آئر لینڈ ‘ بوسنیا ‘ سائپرس ‘ تھائی لینڈ اور کئی ممالک میں مہنگائی کی شرح میں صفر سے منفی16 فیصد تک کم ہوئی ہے یعنی اشیاءسستی ہوئی ہیں ان میں شامل اکثر ممالک ترقی پذیر یا غریب ہیں مگر وہاں ایک نظام موجود ہے جس کا مقصد عوام کی فلاح ہے فرانس میں قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا جبکہ گزشتہ سال یہ اضافہ صرف0.2 فیصد تھا برطانیہ میں یہ اضافہ امسال0.2 فیصد رہا جاپان‘ فن لینڈ ‘ کینیڈا ‘ اردن ‘ سویڈن ‘ گیانا ‘ مالٹا ‘ مالی ‘ ڈنمارک‘ عراق‘ مراکش ‘ بلجیم اور بے شمار دیگر ایسے ممالک ہیں جن میں مہنگائی کی شرح میں گزشتہ ایک بلکہ دو سال میں ایک فیصد سے کم اضافہ ہوا ہے یہ ہوتی ہے حکومت ¾آخر کیا وجہ کہ پاکستان اوراس جیسے ممالک مہنگائی پر قابو پانے اور مافیا کو ناکام بنانے میں ناکام ہیں ؟ صرف ان چند ماہ میں صرف 3 اجناس آٹا ‘ چینی اور ادویات کی قیمتوں میں اضافے سے مافیاز نے اربوں ڈالر کما لئے ہو نگے اب اگر کوئی معجزہ ہو جاتا ہے اور قیمتیں اپنی سابقہ جگہ پر آنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہیں تو کیا حکومت اور اس کے ادارے ان مافیاز کی جانب سے لوٹے گئے کھربوں روپے نکال سکیں گے ؟ ہمارے اور کامیاب اور ترقیافتہ ممالک میں فرق یہ ہے کہ وہاں محکمے اور حکومت عام آدمی کی فلاح اور خدمت کے لئے بنتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں صورتحال یکسر مختلف ہے عوام محض ایک میدہ ہیں جنہیں محض ووٹ کے لئے استعمال کرکے بھلا دیا جاتا ہے ‘ حکمرانوں کو عوام حکومت کے چار سال بعد نظر آتی ہے اور محکمے بھی عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان کے مسائل بڑھانے میں زیادہ مصروف رہتے ہیں ¾عوام سب رلتے رہتے ہیں اور زندگی اسی طرح گزر رہی ہے بغیر کسی بہتری کی امید کے ۔