بلا جفا شوخی!

وزیراعظم تک عوامی شکایات پہنچانے کے لئے ”پاکستان سٹیزن پورٹل‘ نامی موبائل فون ایپ میں تازہ ترین اضافہ (اَپ ڈیٹ) سولہ اکتوبر رات ایک بجے جاری کیا گیا“ جو اِس حکمت عملی کا حصہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جملہ ویب سائٹس اور موبائل فون ایپس میں ’زینب الرٹ‘ کا اِضافہ کر دیا گیا ہے۔ مذکورہ سافٹ وئر کی چشم کشائی (پندرہ اکتوبر) وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری وزارت انسانی حقوق نے کی تھی اور اِس کی مدد سے بچوں کے ساتھ پیش آنے والے زیادتی یا بچوں کے خلاف جرائم کو ”فوری رپورٹ“ کرنا ممکن ہوگا جبکہ اُمید ہے کہ متعلقہ محکموںتک یہ معلومات بروقت پہنچیں گی ¾ قطعی طور پر مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پاکستان میں بچوں کے خلاف جرائم یا بچوں کے اغواءکے واقعات اِس لئے تواتر و تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہے تھے کیونکہ پاکستان میں ”موبائل فون ایپ“ کی کمی تھی ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سرکاری سطح پر جس قدر بھی موبائل فون ایپس بنائی گئی ہیں اُن کو اپ ڈیٹ رکھنا اور اُن کی افادیت و بنیادی مقصد یا مقصدیت پر خاطرخواہ گہرائی سے نظر نہیں رکھی جاتی‘دنیا کے دیگر حصوں میں جس طرح موبائل فون ایپس اور ویب سائٹس کے ذریعے بظاہر طرز حکمرانی کو بہتر تو بنایا گیا ہے لیکن حاصل عمدہ نہیں‘ نکتہ لائق توجہ ہے کہ اگر قانون اور قواعد پر عمل درآمد ہو رہا ہوتا‘ اگر سرکاری محکمے فعال ہوتے۔ اگر انصاف عام‘ سستا و بلاتاخیر ہوتا اور عام آدمی (ہم عوام) کی حسب توقع و اُمید داد رسی ہو رہی ہوتی تو وزیراعظم سمیت صوبائی حکومتوں کو سافٹ وئرز بنانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ ’اِی گورننس‘ سے پہلے اور اِس کے متعارف ہونے کے بعد میں بھی ’وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے!‘ بنیادی ضرورت ترجیحات کا تعین ہے۔ اب تنظیم سازی کا مرحلہ درپیش ہے اور متعلقہ قوانین و قواعد پر نظرثانی ہونی چاہئے کیا واقعی پاکستان جاگ اُٹھا ہے اور اَب پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور اُن کے خلاف جرائم رونما نہیں ہوں گے یا جرائم کا ارتکاب کرنے والے قرار واقعی سزا سے نہیں بچ سکیں گے؟ اِس سلسلے میں حکومت کی مستعدی ہی کافی نہیں بلکہ معاشرے اور سماج کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے آنکھیں اور کان کھلے رکھنا پڑیں گے‘ سال 2018ءکی بات ہے جب قصور شہر (پنجاب) میں زینب نامی ایک بچی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پیش آیا اور اُسے قتل کرنے کے بعد کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا۔ مذکورہ سانحے کے بعد صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی نظریں حکومت پر مرکوز ہوگئیں جس نے دباو¿ سے نکلنے کےلئے قانون سازی بنام ’زینب الرٹ بل (2019ئ)‘ منظور کیا۔ زمانہ حسن نزاکت بلاجفا شوخی .... سمٹ کے آ گئے سب آپ کی اداو¿ں میں (کالی داس گپتا رضا)۔ صد شکر ’زینب الرٹ ایپ‘ کو ”پاکستان سٹیزن پورٹل“ کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور اِسے اُسی کے ذریعے متعارف کروایا گیا ہے تاکہ پہلے سے موجود کروڑوں صارفین کو ازخود اِس ایپ تک رسائی حاصل ہو جائے لیکن ”پاکستان سٹیزن پورٹل“ میں موجود کمی بیشیوں کو دور کرنا بھی یکساں ضروری ہے‘ جیسا کہ اگر کوئی شخص کسی حکومتی شعبے کی کارکردگی یا کسی ترقیاتی حکمت عملی سے متعلق شکایت درج کرواتا ہے اور اُس شکایت پر متعلقہ محکمے کاروائی کرتے ہوئے اپنا جواب دیتے ہیں تو صارف کےلئے سوائے اتفاق کرنے اور جواب پر اکتفا کرنے کے علاوہ چارہ نہیں بالخصوص ایپل فونز استعمال کرنے والے جب ’فیڈبیک‘ دینے کی کوشش کرتے ہیں تو اُنہیں کہا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ ’لاگ اِن ہوں جبکہ وہ پہلے ہی سے ’لاگ اِن‘ ہوتے ہیں اور یوں وہ بار بار کی کوشش اور بار بار ’لاگ اِن‘ ہونے کے باوجود بھی مثبت یا منفی ’فیڈ بیک‘ نہیں دے سکتے۔ دوسری خامی یہ ہے کہ فیڈ بیک کے ساتھ تصویر یا ویڈیو منسلک نہیں کی جا سکتی جو صارف کی طرف سے اِس بات کا بیان ہو کہ جس خرابی سے متعلق اُس نے شکایت کی تھی وہ ہنوز موجود ہے اور اُس کا دستاویزی ثبوت بھی اِرسال کرے۔ اِس قسم کا مدلل فیڈ بیک محکموںکی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے اِنتہائی ضروری ہے۔ اگر سرکاری محکمے وزیراعظم کے دفتر (پاکستان سٹیزن پورٹل) سے بھی جھوٹ بولتے ہیں تو اُن کے لئے سخت سزائیں مقرر ہونی چاہئیں ۔ فیڈبیک سے متعلق تیسری اہم بات یہ ہے کہ کسی شکایت کے حل ہونے کا دورانیہ مقرر نہیں کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ ہفتوں اور مہینوں شکایت پر خط و کتابت کے بعد بھی صورتحال جوں کی توں برقرار رہتی ہے‘ ۔ تحریک انصاف کی حکومت جس شعبے کی کارکردگی کو بھی بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے اُسے ناکام بنانے کے درجنوں راستے نکال لئے جاتے ہیں اور ایسے تمام امکانات ختم ہونے چاہئیں۔ فیڈ بیک سے متعلق چوتھا نکتہ یہ ہے کہ جب شکایت درج کروانے والے کے کوائف لازماً طلب کیا جاتا ہے تو جواب دینے والے سرکاری اہلکاروں کے کوائف بھی اِسی طرح شکایت کنندہ صارف یا صارفین کو بتائی جائے ۔