فخر پشاور

پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں باو¿لنگ کا شعبہ ہمیشہ ہی سے خاص رہا ہے اور گیند پھینکنے کی مہارت پر مبنی تاریخی روایت کو برقرار رکھنے والے چھتیس سالہ فاسٹ بولر عمر گل نے رواں ہفتے کرکٹ کے کھیل سے علیحدگی (ریٹائرمنٹ) کا اعلان کیا ہے۔ عمر گل کا بین الاقوامی کیرئر چار سال قبل اختتام کو پہنچ چکا تھا تاہم یہ کیرئر خاصا متاثر کن رہا ہے۔ انہوں نے سینتالیس ٹیسٹ میچوں میں ایک سو تریسٹھ وکٹیں حاصل کیں۔ ایک سو تیس ’ون ڈے عالمی مقابلوں‘ میں 179 وکٹیں لینے والے عمر گل کا پسندیدہ فارمیٹ ’ٹی ٹوئنٹی‘ رہا اور ساٹھ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں اُنہوں نے پچاسی وکٹیں حاصل کیںجبکہ عمر گل فرسٹ کلاس کرکٹ میں 479وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ سال 2003ءکے عالمی کپ میں مایوس کن کارکردگی کے بعد جب پاکستانی ٹیم میں اکھاڑ پچھاڑ ہوئی تو چند نئے چہرے ٹیم میں دیکھنے کو ملے۔ عمرگل اُنہی میں سے ایک تھے۔ عمر گل نے شارجہ سے سفر کا آغاز کیا جس کی وکٹیں بلے بازوں کے لئے موزوں قرار دی جاتی ہیں اور یہیں سے اُن کے کھیل کا تعارف شروع ہوا‘ جو سال 2004ءمیں بھارت کے خلاف لاہور ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں ان کی صرف اکتیس رنز دے کر پانچ وکٹوں کی شاندار کارکردگی کی صورت سامنے آیا اور اِس کھیل نے پاکستان کی جیت کی بنیاد رکھی۔ ان کے ہاتھوں آو¿ٹ ہونے والوں میں اہم بلے بازوں میں سچن ٹنڈولکر‘ راہول ڈریوڈ‘ وریندر سہواگ‘ وی وی ایس لکشمن اور پارتھیو پٹیل شامل تھے۔ عمرگل کی وجہ شہرت ان کی ”یارکر“ گیندیں تھیں‘ وہ بلے باز کے پاو¿ں کے قریب گیند کو اِس مہارت اور رفتار سے پھینکتے کہ بلے باز کے لئے اُس سے بچ پانا ممکن نہیں ہوتا تھا اور جب وہ پے در پے یارکر پھینک کر اپنی مہارت سے بلے بازوں کو پریشان کر رہے ہوتے تو کرکٹ شائقین پر جوش طاری ہو جایا کرتا تھا اور مدمقابل ٹیم کےلئے ہوش قائم رکھنا ممکن نہیں رہتا تھا۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بالادستی میں عمر گل کی باﺅلنگ نے کلیدی کردار ادا کیا خاص کر سال 2009ءکے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں تو اُن کی باﺅلنگ اپنے عروج پر تھی جس نے پاکستان کو ورلڈ چیمپئن بنانے میں مدد دی۔ اس عالمی مقابلے میں اُنہوں نے سب سے زیادہ یعنی مجموعی طور پر تیرہ وکٹیں حاصل کیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سال 2007ءمیں پہلے ’ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ‘ میں بھی اُن کی حاصل کردہ وکٹوں کی تعداد تیرہ تھی جو اس مقابلے میں کسی بھی باو¿لر کی سب سے زیادہ وکٹیں تھیں۔ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل مقابلوں میں عمر گل کے متعدد باﺅلنگ سپیل شائقین نہیں بھول سکتے۔ سال 2009ءکے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اُنہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف صرف چھ رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کی تھیں۔ یہ کسی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ میں پہلا موقع تھا کہ کسی باﺅلر نے پانچ وکٹیں حاصل کی ہوں۔ انہوں نے 2013ءمیں جنوبی افریقہ کے خلاف سنچورین میں محض چودہ گیندوں پر چھ رنز دے کر پانچ وکٹوں کی اس کارکردگی کو ایک بار پھر دہرایا اور اس وقت وہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے باﺅلر بھی بن گئے تھے۔ 2009ءمیں آسٹریلیا کے خلاف دبئی میں بھی وہ چھائے ہوئے تھے جب چار اُوورز میں اُنہوں نے صرف آٹھ رنز دے کر چار وکٹیں حاصل کیں۔ عمرگل ایک عرصے تک شاہد آفریدی اور سعید اجمل کے بعد عالمی ٹی ٹوئنٹی کے تیسرے سب سے کامیاب باﺅلر رہے اُور اس وقت ان کا سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باﺅلرز میں پانچواں نمبر ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ اس ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں اپنی وکٹوں کی سنچری مکمل کریں‘ جو پوری نہ ہوسکی۔فخر پشاور ’عمرگل‘ کا تعلق نواحی دیہی علاقے ’نواکلی‘ سے ہے جس کی وجہ شہرت سکواش کے عالمی چیمپئن کھلاڑی ہیں۔ سال 2009ءکے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی جیت کے بعد جب وہ اپنے گاو¿ں پہنچے تھے تو اُن کا شاندار استقبال کیا گیا لیکن عمرگل نے کہا کہ گاو¿ں کی اِس مقبولیت پر پہلا حق سکوائش کے کھلاڑیوں کا ہے جنہوں نے کئی عالمی اعزازات جیتے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد بالخصوص پشاور سے تعلق رکھنے والے عمر گل کی کرکٹ اور پشاور کا نام روشن کرنے جیسی خدمات پر ہیش ٹیگ کے ذریعے خراج تحسین پیش کر رہے ہیں اور اِن کی خدمات کو سراہنے والے قومی اور عالمی کرکٹرز بھی شامل ہیں جبکہ کھیلوں کے تجزیہ کار اور آن لائن اشاعتوں میں عمر گل کے بارے میں مضامین شائع ہونے کا سلسلہ جاری ہے البتہ عمر گل کے کھیل اور پشاور کے تعلق سے پاکستان کے ذرائع ابلاغ خاموش ہیں جبکہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ پاکستان کا نام روشن کرنے والے ہر کھلاڑی اور سپوت چاہے اُس کا تعلق ملک کے کسی بھی حصے سے ہو‘ اُسے خراج تحسین پیش کیا جائے اور نئی نسل کو اُس کی خدمات سے متعارف کروایا جائے۔ پاکستان میں اپنی محنت‘ جذبے‘ شوق اور وسائل سے کھلاڑی بنتے ہیں اور جب اِس تلخ حقیقت کو پیش نظر رکھا جاتا ہے تو عمرگل جیسے کھلاڑیوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اُمید ہے کہ عمرگل کو ریٹائر (نظرانداز) نہیں کیا جائے گا اور بالخصوص خیبرپختونخوا میں کھیلوں کے فیصلہ ساز اِن کی مہارت اور تجربے سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھائیں گے۔