وزیراعلیٰ محمود خان نے وفاقی حکومت کے ساتھ صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں کی تیز ترقی کےلئے سالانہ ایک سو ارب روپے مختص کرنے کے سلسلے میں مشاورت کا عندیہ دیا ہے۔ ضلع خیبرکے دور افتادہ سرحدی علاقے تیراہ میں ترقیاتی سکیموں کی افتتاحی تقاریب سے اپنے خطاب میں وزیراعلیٰ نے صوبائی حکومت کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ قبائلی عوام کو زندگی کی تمام ممکنہ سہولیات ان کی دہلیز پر فراہم کرنے کے لئے حکومت تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے گی ۔یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان کی آزادی کے 73سال بعد کسی حکومت کو قبائلی عوام کے پیروں میں پڑی زنجیریں توڑنے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کا خیال آگیا۔ انگریز حکمرانوں کے وضع کردہ کالے قانون فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن ختم کرکے تمام قبائلی علاقوں کو دستور پاکستان کے ماتحت کردیا گیا۔ وہاں عدالتیں قائم کی گئیں، بتدریج تمام سرکاری دفاتر وہاں قائم کئے جارہے ہیں ‘قومی ایوانوں میں قبائلیوں کے منتخب نمائندے موجود ہیں اور نچلی سطح پر اقتدار ، اختیار اور وسائل کی منتقلی کے لئے وہاں بلدیاتی ادارے بھی جلد قائم کئے جائیں گے۔ قبائلی عوام گوناگوں مسائل سے دوچار ہیں تاہم فوری حل طلب مسئلہ دہشت گردی کی وجہ سے گھر بار چھوڑ کر آئی ڈی پیز بننے والوں کی واپسی ، بحالی اور آباد کاری ہے۔ پاک فوج اور قبائلی عوام کی بے مثال قربانیوں کی بدولت قبائلی علاقوں سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوچکا ہے ‘امن بحال ہوا ہے ‘اس لئے گھروں سے بے گھر ہزاروں قبائلی خاندان جلد سے جلد اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں۔ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی وجہ سے 22ہزار خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے جن میں کوکی خیل، سپاہ، قمر خیل، ملک دین خیل اور قنبر خیل قبیلے سے تعلق رکھنے والے خاندان شامل تھے۔ان میں سے کچھ لوگ شہری علاقوں میں اپنے رشتہ داروں کے پاس رہنے لگے ، پچاس فیصد لوگوں نے پشاور اور دیگر شہروں میں کرائے پر مکانات لے کر ان میں قیام کیا اور نقل مکانی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد کیمپوں میں رہائش پذیر ہے۔ جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات ناپید ہیں۔تیراہ کے علاقے کو 2017ءمیں دہشت گردوں سے پاک کردیاگیا۔2018ءمیں نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کی رجسٹریشن شروع کی گئی۔ تاہم بائیس ہزار خاندانوں میں سے صرف ایک ہزار چار سو خاندانوں کی رجسٹریشن ہوسکی۔ نقل مکانی کرنے والوں نے اپنے مستقل پتے کے ساتھ عارضی رہائش کے پتے بھی درج کئے تھے۔بعض خاندانوں کے دو دو گھر ہیں ایک گھر وادی تیراہ میں اور دوسرا شہری علاقے میں ہے۔ دوہرے پتے کے حامل آئی ڈی پیز کی رجسٹریشن نہیں ہوسکی اور نتیجے کے طور پر انہیں امداد بھی نہیں ملی نہ ہی انہیں گھروں کو واپسی اور آباد کاری کے لئے کچھ مل رہا ہے۔بے سروسامانی کے عالم میں نقل مکانی کرنے والوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ اپنے خرچے پر گھروں کو واپس جاکر آباد ہوسکیں۔ یہ صرف ضلع خیبر سے نقل مکانی کرنے والوں کے اعدادوشمار ہیں ضلع مہمند، باجوڑ، کرم، اورکزئی، شمالی اور جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے ہزاروں خاندان بھی گھروں کو واپسی کے لئے سرکاری امداد کے منتظر ہیں وفاقی وصوبائی حکومت اور پاک فوج نے امن کی بحالی کے بعد قبائلی علاقوں میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے شروع کررکھے ہیں جن میں صحت، تعلیم، آبنوشی، آبپاشی، مواصلات اور تعمیرات کے منصوبے شامل ہیں جن کی تکمیل سے قبائلی عوام کو گھروں کے قریب وہ تمام شہری سہولیات میسر آئیں گی جو پشاور، راولپنڈی، لاہور، اسلام آباد، ملتان، فیصل آباد، سکھر، حیدر آباد ، کوئٹہ اور کراچی میں رہنے والوں کو حاصل ہیں۔حکومت نے قبائلی علاقوں کی بحالی، آباد کاری اور ترقی کے لئے جو فنڈز مختص کئے ہیں ان کا پانچ فیصد بھی اگر نقل مکانی کرنے والوں کی باعزت واپسی اور بحالی کے لئے مختص کئے جائیں تو بے گھر ہونے والے تمام قبائلیوں کو ان کے گھروں میں واپس لے جاکر آباد کیا جاسکتا ہے۔ 73سال کی محرومیوں کا ازالہ دو تین سالوں میں ممکن نہیں، اس کا حکومت کو بھی بخوبی احساس ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت نے قبائلی علاقوں کو معاشی، معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے دس سالہ ترقیاتی پروگرام وضع کیا ہے۔ ضرورت اب وسائل فراہم کرنے کی ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی اور خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کو بھی قومی مالیاتی ایوارڈ میں اپنے حصے میں سے تین فیصد قبائلی علاقوں کی ترقی کے لئے مختص کرنا چاہئے جو قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کےلئے مشاورت کے دوران طے پایا تھا۔