رہائش کے مسائل

طویل عرصہ سے وطن عزیز میں رہائشی مسائل پر کسی نے بھی توجہ نہیں دی اگرچہ موجودہ حکومت نے پہلی باراس حوالہ سے کام تو شروع کیاہواہے تاہم اس وقت رہائشی مسائل تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں پچھلے دنوں ملک کے مختلف حصوں میں حکومت کی طرف سے قدیم کچی آبادیوں کو توڑنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا کہ یہ گھر سرکاری زمینوں پر بنے ہوئے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک اس علاقے کی طرف کسی کی توجہ کیوں نہیں گئی؟ اب اچانک ان پر افتادآن پڑی ہے تو یہ راتوں رات کہاں جائیں گے ؟ کیا ان کیلئے کسی متبادل جگہ کا انتظام کیا گیا ہے ؟ اگر حکومت ان بستیوں کے وجود سے بے خبر تھی تو یہاں بجلی اور پانی کی سہولتیں کس نے فراہم کیں؟ یہ تمام بڑے شہروں کا مقدر ہے۔ دنیا کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں جھوپڑے اور جھگیاں نہ ہوں۔ جب کام کی تلاش میں لوگ اپنے گاﺅں اور قصبے چھوڑ کر بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں تو کھلی جگہوں پر بنے ان سستے داموں کے چھوٹے مکان خرید کر کسی طرح قدم جمالیتے ہیں۔ ان بستیوں میں نہ (چوبیس گھنٹے ) پانی کا نظم ہوتا ہے، نہ بیت الخلاءکی سہولت۔ پھر بھی یہ غریب مزدور جینے کیلئے ہرطرح کی تکلیف برداشت کرتے رہتے ہیں۔
۔ اس ایک کمرے کی جنت میں کبھی دو اور کبھی تین خاندان سرچھپالیتے اور شکایت تک نہیں کرتے کیونکہ بڑے شہروں میں مکان خریدنا مہنگا سودا تھا۔ اپنے گھر کی تعمیر کا خواب تو ہر کوئی دیکھتا ہے مگریہ خواب اکثر شرمندہ تعبیر نہیں ہوتے۔ عام طور پر لو گ ریٹائرمنٹ کے بعد گاﺅں میں اپنا گھر بناتے ہیں جب فنڈ کی ایک معقول رقم ان کے ہاتھ آتی ہے مگر شہروں میں تو ذاتی مکان خریدنے کا خیال بھی ناممکن تھا کیوں کہ اس کیلئے لاکھوں روپے درکار ہوتے ہیں جو عموماً عام آدمی کے پاس نہیں ہوتے‘ اب یا تو آپ اپنے کسی دوست یا عزیز سے قرض لیجئے یا بینک سے قرض لے کر برسوں قسط ادا کیجئے۔ بصورت دیگر ، چپ چاپ اسی گھر میںپڑے رہئے جہاں آپ کے والدین نے اپنی عمر گزاری تھی۔بڑے شہروں کے رہائشی علاقوں کا تجزیہ کریں تو واضح ہوگا کہ یہاں کی 60 فیصد آبادی ایسے ہی علاقوں میں رہتی ہے جہاں بنیادی سہولتیں عنقا ہیں۔ لوگ پھر بھی ان علاقوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں۔ وجہ ظاہر ہے۔ یہ تنگ وتاریک مکانات اتنے سستے ہیں کہ کہیں اورجائیں تو ان کی جیب نئے فلیٹ کی قیمت ادا ہی نہیں کرسکتی۔
عام طورپر روزگار کے حصول اورشادی کے بعد گھر کے حصول کیلئے جو جدوجہد شروع ہوتی ہے تو اس میں پندرہ بیس سال لگ ہی جاتے ہیں جس میں آبائی مکان ، کھیت یا دوسری جائیداد کا فروخت کرنا ضرو ری ہوتا ہے ،ایک صورت کرا ئے کے مکان میں منتقل ہونے کی بھی ہے۔ مگر شہروں میں کرائے زیادہ ہونے کی وجہ سے متوسط طبقہ کا فرد ان کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا۔ خود ہماری حکومت نے بھی کرائے میں اضافے کو روکنے کیلئے کوئی قانون نہیں بنایا، نہ کرایہ داروں میں اتنا اتحاد ہے کہ وہ حکومت یا جائیداد مالکان پر دباﺅڈال سکیں جبکہ دیگر ملکوں کے حالات بالکل مختلف ہیں۔ مثلاً جرمنی میں کرایہ داروں کی انجمن کی اجازت کے بغیر کرائے نہیں بڑھائے جاسکتے۔ لندن کے میئر صادق خان نے پانچ برسوں کیلئے کرایوں کو ’فریز‘کردیا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی حالیہ الیکشن میں کرایہ داروں کی حمایت میں بولنے لگے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں رہائش کا مسئلہ کسی سیاسی پارٹی کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہا۔ نہ آج تک کوئی الیکشن اس مسئلے کو بنیاد بنا کر لڑاگیا۔ ہمارے غریب ووٹرز میں سیاسی شعور کا ایسا فقدان ہے کہ سیاست داں روپوں کی تھیلی لے کر دروازے پر آجائیں تو انہیں اپنا مائی باپ سمجھ لیتے ہیں۔ سیاستدانوں کو بھی پتہ ہے کہ فلیٹوں میں رہنے والے چاہے اپنے گھروں میں بیٹھ کر ہماری مخالفت کریں مگر ووٹ دینے یہ غریب ہی آئیں گے، اسلئے انہیں یہی بسائے رکھو۔ بس! وقتاً فوقتاً کچھ سہولتیں دے کر انہیں خوش کرتے رہو۔ باالفاظ دیگر ہر سیاسی پارٹی عوام کو ایک باعزت زندگی گزارنے کے بنیادی حق سے محروم رکھنے کو ہی سیاست سمجھتی ہے۔
 اس باب میں سنگاپور کے پہلے وزیراعظم Lee Kuan Yew کا یہ بیان اکثر د±اہریا جاتا ہے کہ جب تک حکومتیں ایک عام آدمی کے مستقبل کو خوبصورت نہیں بناتیں ، وہ آدمی حکومت اور معاشرے کیلئے کارآمد نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سنگا پور کے دس شہریوں میں سے نوکے پاس اپنا ذاتی مکان ہے اور سنگاپور کی آبادی مجموعی طورپر خوشحال ہے۔ فرانس اور جرمنی میں کسی بلڈر کی ہمت نہیں کہ وہ سرکاری فنڈ حاصل کرکے ناقص عمارتیں تعمیر کرے۔ سان فرانسسکو میں کسی بھی نئی عمارت کے تعمیراتی نقائص کے خلاف عدالت میں اپیل کی جاسکتی ہے۔ نتیجتاً وہاں اکثر تعمیراتی کام میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ روسی حکومت اپنی نگرانی میں سالانہ دس لاکھ مکانات تعمیر کرتی ہے اور ہر مکان اتنا آرام دہ ہوتا ہے کہ عام روسی اپنی زندگی بڑے آرام سے گزارتا ہے اوراسے سرکار سے شکایت نہیں ہوتی۔
۔ حکومت کی بے حسی دیکھئے کہ یہ سیاستداں اپنے لئے تو کشادہ مکانات بنالیتے ہیں مگر جن کے ووٹوں سے اقتدار حاصل کیا تھا، انہیں بے گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ جب تک عوام کیلئے سستے گھر بنائے نہیں جاتے، گھروں کے فنانس کیلئے معقول سکیمیں نہیں بنتیں اور بڑے شہروں کی مناسب منصوبہ بندی نہیں ہوتی، شہریوں کی اکثریت انہی جھونپڑوں میں رہنے کیلئے مجبور ہوگی۔ اب غریب عوام صرف اپنے خدا سے دعا کرتے رہیں کہ ”میں جس مکان میں رہتا ہوں، اس کو گھر کردے۔